فلسطین کے ایک ممتاز دانشور اور سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر عبدالستار قاسم نےکہا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت "حماس”نے ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے میں ایک ہزارستائیس فلسطینی قیدیوں کو رہا کرا کے قوم کی بڑی خدمت انجام دی ہے۔
ان کا کہنا ہےکہ ایک قیدی کی رہائی بھی ایک گراں قدرکارنامہ ہے لیکن حماس نے دشمن کی جیلوں سے ایک ہزارسے زائد قیدیوں کو رہا کرانے کا معاہدہ کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے رام اللہ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسرقاسم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ مصر کی ثالثی کے تحت حماس کے ساتھ کی گئی ڈیل پر فوری عمل درآمد کرے اور تمام دیگر اسیران کو بھی فوری رہا کرے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگارنے کہا کہ اس وقت یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ قیدیوں کے تبادلے میں کون رہا ہوا اور کون نہیں ہوا۔ بلکہ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ دشمن کے ایک سپاہی کے بدلے میں ہمارے ایک ہزار سے زائد شہری دشمن کی قید سے رہا ہو کر اپنے پیاروں سے آملے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے ہوتے رہےہیں۔ لیکن اسیران کے تبادلے کی جو قیمت حماس نے اس ڈیل میں وصول کی ہے وہ ماضی میں کسی گروپ کے حصے میں نہیں آسکی۔
فلسطین کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالستارقاسم نے کہا کہ دشمن ہمارے اختلافات سے خوش ہے، لیکن فلسطین کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ موجودہ وقت میں انکا اتحاد کتنا ناگزیرہے۔ انہوں نے مغربی کنارے میں عباس ملیشیا کے ہاتھوں حماس اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں کی مسلسل گرفتاریوں کی شدید مذمت کی اوراسے مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔
خیال رہے کہ دو ماہ پیشتر حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر کی ثالثی کے تحت اسیران کے تبادلے کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت اسرائیل نے اپنے ایک فوجی کے بدلے میں فلسطین کے ایک ہزار ستائیس اسیران کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان میں پہلے مرحلے میں چار سو پچہتر فلسطینیوں کو رہا کیا جا چکا ہے جبکہ ساڑھے پانچ سو اسیران کی رہائی ابھی باقی ہے، جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔