فلسطین کے تاریخی شہر بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں اور انتہا پسند یہودیوں کےدرمیان جھڑپیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔ پیر کے روز بیت المقدس کے وسط میں راس العمود کے مقام پر انتہا پسند یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان اس وقت سخت جھڑپیں شروع ہوئیں جب یہودی آبادکاروں نے فلسطینیوں کے گھروں پر پتھراؤ کر کے ان کی توڑ پھوڑ شروع کی۔ جھڑپوں کا سلسلہ دن بھر جاری رہا۔ اس دوران اسرائیلی فوج کےلاٹھی چارج اور انتہا پسند یہودی آباد کاروں کے حملوں میں کئی فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق عینی شاہدین اور مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ پیر کے روز انتہا پسند یہودیوں نے شہر کے مرکزی علاقوں البستان، وادی حلوہ، حارہ الوسطیٰ اور راس العمود میں فلسطینیوں کےگھروں پرپتھراؤ کیا۔ پتھر لگنے سے کئی خواتین اور بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جواب میں مشتعل فلسطینی نوجوانوں نے بھی غاصب یہودیوں پر پتھراؤ کیا، تاہم اس موقع پرصہیونی فوج اور پولیس انتہا پسندوں کو تحفظ دلانے کے لیے آگے آگئی۔
عینی شاہدین کے مطابق انتہا پسند یہودیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر تشدد ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا کہ بستان کالونی میں یورپی یونین کے انسانی حقوق کا ایک وفد فلسطینی اسیران کے ساتھ اظہاری یکجہتی کے لیےلگائے گئے ایک کیمپ کے دورے پر تھا۔ ان کے ساتھ آئے فوٹو گرافروں نے انتہا پسندوں کے حملوں کی تصاویر لینے کی کوشش کی تو یہودیوں نے کیمرہ مینوں کو تصاویر اتارنے سے روک دیا۔ اس دوران شدت پسندوں نے تصویر اتارنے کی پاداش میں ایک کیمرہ مین کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کا کیمرہ توڑ دیا۔
ادھر پیر کے روز مقبوضہ بیت المقدس میں انتہا پسند یہودیوں کے حملے کے دوران صہیونی فوج نے شدت پسندوں کےخلاف کارروائی کے بجائے اپنا دفاع کرنے والے دو فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔اسرائیلی ریڈیو کا کہنا ہے کہ فوج نے دو فلسطینیوں کو یہودیوں پر تشدد کے الزام میں پکڑا ہے تاہم راس العمود کے رہائشی محروسین کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کےبیٹوں کی گرفتاریوں گھروں پر چھاپوں کے دوران کی گئی ہیں نیز یہ وہ کسی یہودی پر حملے میں بھی ملوث نہیں۔