(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے جو مؤقف وزیراعظم عمران خان نے اپنایا ہے وہ پاکستان کا دیرینہ مؤقف ہے جس کا عرب لیگ یا او آئی سی سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک نجی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناں نے 1940 میں دو قراردادیں پیش کی تھی جس میں ایک قرار داد پاکستان تھی دوسری قرارداد فلسطین تھی،پاکستان وہ واحد غیر عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف دو جنگیں لڑی ہیں جس میں 1967 میں اردن کی جانب سے جبکہ دوسری 1973 میں شام کی طرف سے پاکستان تو اسرائیل کے خلاف اس حد تک گیا ہے جتنا کوئی دوسرا ملک نہیں گیا پاکستان کی فلسطین کے حوالے سے بڑی قربانیاں ہیں ہم اپنے دیرینہ مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
انھوں نے واضح کیا کہ جو موقف پاکستان کا مقبوضہ کشمیر پر ہے وہی موقف مقبوضہ فلسطین پر ہے اگر ہم فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرتےہیں تو یہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے دونوں علاقوں کا مسئلہ ایک سا ہے ایک مشرقی وسطیٰ میں ہے تو دوسرا جنوبی ایشیا میں ، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد ہے کہ پاکستان کشمیر پر اپنے درینہ موقف کو بھی خیر آباد کہہ دے اور یہ ہم کر نہیں سکتے یہ ہماری قومی پالیسی ہے فلسطین ہمارے لیئے بہت مقدس ہے تو کشمیر بھی ہمارے لیئے بہت اہم ہے
حالیہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کے سعودی عرب کے خفیہ دورے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے اس ملاقات کی تردید کی ہے لیکن بین القوامی میڈیا اس کی تصدیق کررہا ہے یہ ایک واضح ہے کہ یہ خفیہ ملاقات اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو ، سعودی وزیرخارجہ مائیک پومپیو اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان گزشتہ اتوار کی رات ہوئی جس کی تصدیق معروف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل جبکہ اسرائیل کے دو معروف اخبار یروشلم پوسٹ اور ٹائمز آف اسرائیل نے بھی کی ہے ۔
اس خفیہ ملاقات کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ3 نومبر کے امریکی انتخابات میں جو بائڈن کی کامیابی سعودی عرب کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ سعودی عرب نے تمام تر امید ٹرمپ سے لگائی ہوئی تھیں او ر اب ٹرمپ کے جانے کے بعد ان کو نئے دوستوں اور نئے حلیفوں کی ضرورت ہے اور سعودی سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن کا راستہ تل ابیب کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
امریکی سیاست میں اسرائیل کا بہت گہرا ثر رسوخ ہے چاہے ڈیمو کریٹس ہوں ریپبلکن اگر بائڈن سابق صدر بارک اومابا کی پالیسیز کو بھی لے کر چلے جو کہ سعودی عرب کے زیادہ قریب نہیں تھا سعودی عرب اوبامہ سےبہت ناراض بھی تھا اور اب بھی و ہ ڈرے ہوئے ہیں کہ جو بائیڈن کیا کرے گا سعودی عرب کے ساتھ اس لئے سعودی عرب سمجھتا ہے کہ اگر ان کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ اچھے ہوں تو سعودی عرب کو امداد ملے کی دفاع ملے گا اسرائیلی لابی جو واشنگٹن میں ہے وہ سعودی عرب کو سپورٹ کریں گے ۔
انھوں نے کہا کہ ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے لیکن اس وقت جن ممالک نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا ہے وہ ایک کمزوری کے تحت ہے کیونکہ اس وقت عرب خطہ تقسیم بھی ہے اور بہت کمزور بھی ہے خاص طورپر سعودی عرب کو شدید خطرات لاحق ہیں اسی لیئے انھوں نے ابھی ترکی کے ساتھ بھی اور اسرائیل کے ساتھ بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے