فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” کی حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ قوم کی ایک عظیم الشان فتح ہے کیونکہ اس معاہدے کے تحت دشمن کے ایک سپاہی کے بدلےمیں سیکڑوں جہادی رہ نماؤں اور کمانڈروں کو رہا کرایا گیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق وزیراعظم نے خطبہ جمعہ اور مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گو کہ اسرائیلی جیلوں سے رہا کرانے کے بعد ہمیں بعض اہم جہادی رہنماؤں کو دوسرے ممالک بھی بھیجنا پڑا ہے لیکن یہ جلا وطنی عارضی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ہم قطر، اردن، شام اور ترکی جلا وطن کیے گئے فلسطینی شہریوں کا غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں استقبال کریں گے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے فلسطینی ہیروز میں ایسے بھی تھے جن پر یہودیوں کو قتل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان میں ایسے اسیران کے بارے میں خود اسرائیلی میڈیا میں یہ اعداد و شمار جاری کیے گئے تھے کہ وہ 1120 یہودیوں کے قتل میں ملوث ہیں اور انہیں ان الزامات کے تحت اسرائیلی عدالتوں سے مجموعی طور پر ایک لاکھ بانوے ہزارسال کی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر بجا لائیں اتنا ہی کم ہے، کیونکہ ہم نے دشمن کی قید سے اپنے وہ اسیر بھی چھڑائے ہیں جنہیں عمرقید کی سزائیں سنائیں گئی تھیں۔ انہیں میں غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے کمانڈر مصعب الھشلمون بھی شامل ہیں جنہوں نے اس مسجد میں جمعہ کی اذان دی جس میں اسماعیل ھنیہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی۔
خیال رہے کہ مصعب کو کئی فدائی حملوں میں براہ راست معاونت کرنے کےالزامات کے تحت اسرائیلی عدالتوں سے عمرقید اور اس کے علاوہ کئی سال اس کے علاوہ قید کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے شیخ عبدالعزیز الرنتیسی شہید اور شیخ احمد یاسین شہید کا انتقال لینے کے لیے کئی یہودی فوجیوں اور یہودی آباد کاروں کو قتل کیا تھا۔