فلسطینی تاریخ میں چھیانوے روز کی طویل ترین بھوک ہڑتال کے بعد معروف فلسطینی اسیر محمود سرسک اسرائیلی جیل سے رہائی پا کر غزہ پہنچ گئے جہاں پر ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔
اٹھارہ جون کو بھوک ہڑتال ختم کرنے کے بدلے رہائی کے معاہدے میں کامیاب ہونے والے سرسک فٹ بال کے کھلاڑی رہے ہیں۔
انہیں جولائی 2009ء میں غزہ کی پٹی کی بیت حانون کراسنگ پر اس وقت گرفتار کرلیا گیا تھا جب وہ فٹ بال ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے مغربی کنارے جانے کے لیے نام نہاد اسرائیلی ریاست سے گزر رہے تھے۔
اسرائیلی فوج نےانہیں گرفتار کرتے ہی عسقلان کے بدنام زمانہ تفتیشی مرکز منتقل کرکے بہیمانہ تشدد سمیت تفتیش کے اوچھے ہتھکنڈوں سے گزارنا شروع کردیا تھا۔ تیس دن تک مسلسل تفتیش کے باوجود اسرائیلی اہلکار ان کے تحریک جہاد اسلامی سے تعلق کو ثابت نہ کرسکے۔ تفتیش کاروں کی جانب سے انہیں بہیمانہ تشدد کے ذریعے جہاد اسلامی سے تعلق کے اعتراف پر مجبور کیا جاتا رہا۔
محمود سرسک کے جہاد اسلامی کے ساتھ تعلق ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد 23 اگست 2009 کو سرسک کو ’’غیر قانونی جنگجو‘‘ کے قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا، انہیں بغیر کسی فرد جرم کے انتظامی حراست میں رکھا گیا۔
بیس جنوری 1987ء کو پیدا ہونے والے سرسک کا تعلق غزہ کی پٹی کے شہر رفح کی شابورہ کالونی سے ہے۔ وہ کمپیوٹر کی تعلیم کے تیسرے سال کے طالب علم اور فٹ بال کے اچھے کھلاڑی ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین