فلسطین کے محاصرہ زدہ شہر غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کی آئینی حکومت کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت صہیونی جیلوں میں زیرحراست تمام اسیران کی رہائی کے لیے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائے گی۔ انہوں نے مزاحمتی گروپوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجی کی رہائی کے لیے اپنی شرائط پر قائم رہیں تاکہ اس کے بدلے میں زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کورہائی دلوائی جا سکے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسماعیل ھنیہ نے ان خیالات کا اظہار خطبہ جمعہ اور مختلف وفود کےساتھ گفتگو کے دوران کیا۔
غزہ میں جمعہ کے خطبے میں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں زیرحراست آٹھ ہزار فلسطینیوں کا معاملہ اب صرف فلسطین یا عرب ممالک تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک بین الاقوامی ایشو بن چکا ہے۔ ہم اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں گے تاکہ فلسطینی اسیران کی رہائی کے لیے قابض صہیونی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے صہیونی جیلوں میں زیرحراست سات ہزار بھوک ہڑتالی قیدیوں کی جانبسے گیارہویں روز بھی بھوک ہڑتال جاری رکھنے پر انہیں مبارک باد دی۔ انہوں نےفلسطینی اسیران کے مسائل اور ان کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرعالمی برادری کی توجہ بھی مبذول کرائی۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو فلسطینی مجاہدین کے قبضے میں موجود اسرائیلی جنگی قیدی گیلاد شالیت مظلوم دکھائی دیتا ہے، لیکن وہ فلسطینی اسیران کی طرف نہیں دیکھتے جن میں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں قابض اسرائیلی عدالتوں کی طرف سے 1200 سال قید کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حماس اور فلسطینی حکومت جہاں ارض فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد کر رہی ہیں وہیں وہ قیدیوں کی رہائی کے لیے بھی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ہماری یہ جنگ اسرائیلی جیلوں میں قید آخری قیدی کی رہائی تک جاری رہے گی۔
بعد ازاں مختلف وفود کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے انسانی حقوق اور امدادی اداروں کی جانب سے محصورین غزہ کی امداد کے لیے جاری کوششوں کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے فلسطینیوں کی بھرپور مدد کر کے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بین الاقوامی امدادی قافلے”میلوں مسکراہٹ” کے وفد سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم امریکا سمیت پوری عالمی برادری پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بنیادی حقوق اور قومی اصولوں پر سودی بازی کریں گے اور نہ ہی فلسطین کی آزادی کے لیے کسی بلیک میلنگ کا شکار ہوں گے۔ فلسطینی عوام اپنے حقوق اور آزادی کی جنگ کئی عشروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم چھین کر آزادی حاصل کریں گے۔ دنیا فلسطینیوں کو” کچھ لو اور کچھ دو”جیسے عمل پر مجبور کرنے کے لیے وقت ضائع نہ کرے۔