یورپ میں فلسطینی اسیران کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’یوفری‘‘ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام اٹھارہ اکتوبر کو ’’تبادلہ اسیران‘‘ معاہدے میں رہا ہو کر ملک بدر کیے گئے فلسطینی اسیران کے رشتہ داروں کو اپنے پیاروں سے ملاقات کے لیے مغربی کنارے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
یورپی نیٹ ورک برائے تحفظ حقوق فلسطینی اسیران ’’UFree‘‘ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ حماس اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں صہیونی جیلوں سے رہا ہو کر قطر، ترکی اور شام اور غزہ بھیجے گئے اسیران کے مغربی کنارے میں موجود رشتہ داروں کو اردن اور مغربی کنارے کے مابین ’’الکرامہ کراسنگ‘‘ سے گزرنے نہیں دیا جا رہا۔ اسرائیلی حکام سکیورٹی انتظامات کے نام پر بچوں اور خواتین کو اردن داخلے کی اجازت دینے سے مسلسل گریزاں ہیں۔
یورپی نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام رہائی پانے والے ضلع الخلیل کے اسیران محمود قواسمہ، ایمن قفیشہ، علاء قفیشہ، مراد الرجوب، مجدی الجبعہ، ضلع رام اللہ کے قاضی شلالدہ، سعید شلالدہ اور عبداللہ، ضلع بیت لحم کے ایاد عبیدات، ضلع نابلس کے حسام بدران اور عبادہ بلال اور ضلع جنین کے اسیر عبد الحکیم حنینی کے رشتہ داروں کو بیرون ملک جانے سے روک چکے ہیں۔
اوسلو میں ہیڈ کوارٹر رکھنے والی تنظیم ’’UFree‘‘ نے اسرائیل کی جانب سے قیدیوں سے ملاقات کے لیے جانے والے فلسطینیوں پر بیرون ملک سفر پر پابندی کے اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ حالیہ اسرائیلی اقدامات سالہا سال عقوبت خانوں میں تشدد کے بعد رہا ہونے والے اسیران اور ان کے رشتہ داروں کو غیر قانونی طور پر مصائب اور مشقتوں میں ڈالنے کی نئی شکل ہے۔
یورپی تنظیم کا کہنا ہے کہ چودہ سالہ لڑکی سارہ ایمن قفیشہ کا بیرون ملک سفر کس طرح سکیورٹی کے حوالے سے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یورپی نیٹ ورک نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کو اپنے پیاروں کی ملاقات کی اجازت دینے کے لیے اسرائیل پر دباؤ بڑھائیں۔