فلسطینی مزاحمتی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے مقبوضہ مغربی کنارے میں صدرمحمود عباس کے زیرکمانڈ تعینات سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تنظیم کے کارکنوں کی بلا جواز گرفتاریوں کی شدید مذمت کی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں خالد مشعل اور صدر محمود عباس کے مابین مفاہمتی معاہدہ طے پانے اور سیاسی گرفتاریوں کا بابند کرنے پرا تفاق کے باوجود دسمبر میں مغربی کنارے سے حماس کے بہتر کارکن گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالے گئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے میڈیا کے دفتر سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ”اوسلو گروپ” کی سیکیورٹی فورسز کی فلسطین دشمنی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ فلسطینیوں کے مابین مفاہمتی مساعی کو نظرانداز کرتے ہوئے عباس ملیشیا نے گذشتہ ماہ حماس کے درجنوں کارکنوں کو اغواء کر لیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارے کے تمام شہروں میں عباس ملیشیا کے ظالمانہ کریک ڈاؤن میں جہاں درجنوں کارکنوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا وہیں بڑی تعداد میں حماس کے کارکنوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے وابستگان کو سیکیورٹی فورسز کے مراکز میں طلب کرنے کے نوٹسز جاری کیے گئے۔ گرفتار کیے گئے حماس کے ارکان کو گذشتہ سالوں کےدوران کئی مرتبہ جیلوں میں تفتیش کے مراحلے سے گذارا گیا ہے۔
دسمبر میں جن 72 حماس کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ان میں بیشتر ایسے ہیں جواس سےقبل کئی مرتبہ عباس ملیشیا کی جیلوں میں حراست میں رہ چکے ہیں۔ ان میں یونیورسٹی کے طلباء، اساتذہ، مساجد کے آئمہ اور علماء بھی شامل ہیں۔
حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان عدنان ضمیری کے اس بیان کو مسترد کر دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں سیکیورٹی فورسز نے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ حماس نے عدنان ضمیری کے بیان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضمیری یہ بتائیں کہ ایک ماہ کے دوران سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیے گئے حماس کے 72 کارکنوں نے ایسا کون سا جرم کیا تھا جس کی بنا پرانہیں جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔