فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام سرکاری بنک نے قوم دشمنی کا مظاہرہ کرتےہوئے فلاحی اداروں کے ہزاروں اکائونٹس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں ہزاروں یتیموں، بیوائوں، مریضوں اور طلباء کو ملنے والے وظائف بند ہوجائیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی نیشنل بنک کی جانب سے فلاحی اداروں اور خیراتی تنظیموں کے کھاتے بند کیے جانے پرعوامی اور سیاسی حلقوں میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ غزہ کی پٹی میں فلاحی تنظیموں کے اتحاد کے رابطہ کار احمد الکرد نے بتایا کہ مخیر اداروں کے غزہ کی پٹی میں کھاتے بند کیے جانے کے نتیجے میں 40 ہزار یتیم بچے، بیوہ عورتیں، مریض اور طلباء براہ راست متاثر ہوں گے اور ان اداروں کے توسط سے انہیں ملنے والی امداد رک جائے گی۔
احمد الکرد نے کہا کہ انہوں نے فلسطینی سرکاری بنک کی جانب سے فلاحی اداروں کے کھاتے بند نہ کرنے کی اپیل کی ہے اگران کی درخواست پرعمل درآمد نہ ہوا تو وہ منگل سے بنکوں کے سامنے دھرنا دیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے احمد الکرد کا کہنا تھا کہ حال ہی میں فلسطینی سرکاری بنک نے غزہ کی پٹی میں یتیم بچوں، بیوہ خواتین، معذوروں اورمستحق طلباء کی کفالت کرنے والی 32 تنظیموں کے کھاتے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگران تنظیموں کےکھاتے بند ہوجاتے ہیں تو غزہ کی پٹی میں اس کے نتیجے میں چالیس ہزار افراد براہ راست متاثر ہوں گے۔
فلسطینی سماجی کارکن کاکہنا تھا کہ انہیں بنک کے بائیکاٹ پرمجبور کیا جا رہا ہے۔ اگر بنک کی انتظامیہ نے فلاحی تنظیموں کےاکائونٹ بحال رکھنے کا فیصلہ نہ کیا تو ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم غزہ کی پٹی میں سرکاری بنک کی تمام برانچز کے باہر دھرنا دیں گے اور بنک کو بند کرادیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں الکرد کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں فلاحی اداروں کے بنک کھاتوں کی بندش کا سلسلہ نیانہیں بلکہ کئی قبل 15 فلاحی اداروں کے غزہ کی پٹی میں بنک کھاتے بند کردیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں فلاحی تنظیموں کے بنک اکائونٹس بند کیے جانے کے پس پردہ سیاسی محرکات کارفرما ہیں۔ ان تنظیموں پر الزام عاید کیاجاتا ہے کہ وہ اسلامی تحریک مزحمت "حماس” کے قریب ہیں اور فنڈز کا بیشتر حصہ حماس کے قریبی لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی خود کو غزہ کی پٹی میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں جاری کرنے کی اپنی قومی ذمہ داری سے بھی پہلو تہی اختیار کررہی ہے اور فلاحی اداروں پرحماس نوازی کا الزام عاید کرکے ہزاروں غریب شہریوں کے منہ سے آخری لقمہ بھی چھینا جا رہا ہے۔
رقوم کی منتقلی کے خطرات؟
ایک دوسرے سوال کے جواب میں احمد الکرد کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں فلاحی اور رفاہی خدمات فراہم کرنے والی تنظیموں کے بارے میں بہت کچھ کہاجاتا ہے لیکن آج تک کسی ایک تنظیم کی غیرقانونی سرگرمی ثاتب نہیں ہوسکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلاحی اداروں کے فنڈز فلسطینی اتھارٹی کی تحویل میں لیے جانے کا کوئی خدشہ نہیں کیونکہ غزہ کی پٹی میں یتیموں، بیوائوں، طلباء اور مریضوں کی کفالت کرنے والی تمام تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں اور وہ پیشہ وارانہ بنیادوں پر کام کرتی ہیں۔ دہشت گردی کی معاونت کی باتیں محض جھوٹ اور منفی پروپیگنڈہ ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں کفالت کے لیے فنڈز امریکا، یورپی یونین اور دنیا کے دوسرے ملکوں سے آتے ہیں جو یتیموں، معذوروں اور بیوہ خواتین پر صرف کیے جاتے ہیں۔
بنک کی ناقابل عمل تجاویز
دوسری جانب فلسطینی بنک کی جانب سےکچھ تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔ فلاحی تنظیموں نے ان تمام تجاویز کو مسترد کردیا ہے۔ بنک کی جانب سے کہا گیا تھا کہ تنظیمیں اپنے طورپر لوگوں کو وظائف فراہم کرنے کے بجائے بنک میں ہر ایک کا انفرادی اکاوئنٹ کھلوائیں۔ اس پر الکرد کا کہنا تھا کہ یہ تجویز ناقابل عمل اور غیر منطقی ہے۔ جب ہرایک شخص کا الگ سے اکائونٹ بنے گا تو ان میں رقوم کیسے منتقل ہوں گی۔ اس وقت یہ تنظیمی ہی عالمی برادری سے چندہ جمع کرکے غزہ کے ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہیں۔ اگردمیان سے ان تنظیموں کو نکال دیاجاتا ہے تو باہر سے انہیں کون فنڈز فراہم کرے گا۔
اس کے علاوہ یہ تنظیمیں صرف رقوم ہی نہیں فراہم کرتی بلکہ اسکولوں کی کتابیں، بستے اور دیگر سامان بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر یہ تنظیمیں بند کردی جائیں گی تو مختلف اشیاء کی صورت میں ملنے والی امداد مستحقین تک کیسے پہنچے گی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی سال سے غزہ کی پٹی کے ہزاروں خاندانوں کی کفالت ان تنظیموں نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ کے بعد ان لوگوں کا تنظیموں کے علاوہ کوئی اور سہارا نہیں ہے اگر انہیں بند کردیا جاتا ہے تو غزہ کی پٹی میں ہزاروں افراد کے منہ سے نوالہ چھن جائے گا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین