فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم”مرکز برائے سماجی و معاشی حقوق” نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پرالقدس کے شہریوں کو ان کے مکانات مسمار کرنے پرمجبور کررہا ہے اور بیت المقدس کے مکینوں کے خلاف ظالمانہ روش جاری رکھے ہوئے ہے۔
رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیلی حکام نے گذشتہ 5 ماہ کے دوران مقبوضہ بیت المقدس کے 18 افراد کو انہی کے ہاتھوں اپنے مکانات مسمار کرنے پرمجبورکیا۔ گرائے گئے مکانات میں 136 افراد رہائش پذیر تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قابض حکام نے شہریوں کو مجبور کیا کہ وہ صہیونی بلدیہ کے تحت مکانات مسمار کرنے والی کرینوں کی فیس ادا کرکے کرینیں منگائیں اور اپنے جیب سے رقم خرچ کرکے اپنے بنائے ہوئے مکانات مسمار کرائیں۔ اس طرح شہریوں سے ہزاروں ڈالر کی رقم لینے کے بعد ان کے مکانات کو مسمار کرایا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جون مکانات کی مسماری کے اعتبار سے اہم ترین مہینہ سمجھاجاسکتا ہے۔ قابض حکام نے اس ماہ میں بیت المقدس میں کم از کم 10 مکانات مسمار کرائے ، ان مکانوں میں 70 سے زائد افراد قیام پذیر تھے۔ زیادہ تر مکانات قدیم بیت المقدس کے علاقوں جبل مبکر، سلوان اور طور میں گرائے گئے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیلی بلدیہ کی جانب سے بیت المقدس میں سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں کو تنبہی خطوط جاری کیے گئے ہیں اور انہیں مکانات خالی کرنے یا گرانے کو کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اپریل کے مہینے میں بیت المقدس میں نابلس روڈ پرآٹھ مکانات کو مسمار کرایاگیا۔ علاوہ ازیں اسی علاقے میں قابض فوج نے محمود شویکی نامی شہری کی ملکیت مکان اور کئی دکانوں کو بھی گرا دیا گیا۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیاگیا ہے کہ قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے بیت المقدس کے شہریوں کے مکانات گرانے کی پالیسی بدستور جاری رہی تو القدس کے بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کو اپنے مکانات اور جائیدادوں سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلا جواز شہریوں کے مکانات مسمار کرنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے مقبوضہ شہر کے عرب مکینوں کو ہرقسم کا تحفظ فراہم کرے۔