تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کی تاریخ 15مئی سنہ1948ء ہے ۔ یہ وہ سیاہ ترین دن ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین پر دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صہیونیوں نے عالمی استعماری قوتوں برطانیہ اور امریکہ کی پشت پناہی میں اپنا ناجائز اور غاصبانہ تسلط قائم کر لیا اور سرزمین فلسطین پر اسرائیل نامی ریاست کا وجود عمل میں لایا گیا ۔ ا س دن فلسطینی عربوں کو قیامت سے گزرنا پڑا ۔ ایک طرف براہ راست صہیونی دہشت گرد تنطیموں نے فلسطینی عربوں کا قتل عام کیا، عزتوں کو تاراج کیا، فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا تو ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو فلسطین سے باہر بھی دھکیل پھینکا اور ایک ہی دن میں آٹھ لاکھ سے زیادہ مظلوم فلسطینی عرب اپنے ہی وطن اور گھر سے محروم کر دئیے گئے اور پڑوس میں موجود ریاستوں من جملہ لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے ۔ اس دن کی تباہی اور بربادی کو فلسطین کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ آج دنیا کی مہذب تاریخ میں ’’یوم نکبہ‘‘ یعنی تباہی وبربادی کا بہت بڑا دن کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ دن پوری دنیا میں فلسطین کے باشندوں اور فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع میں یوم نکبہ کے عنوان سے یاد کیا جاتاہے ۔ فلسطینی عوام یون نکبہ کو ایک بہت بڑی تباہی اور قیامت کے دن تشبیہ دیتے ہیں ، یقینا یہ دن قیامت سے کم نہیں تھا کہ جب دوسری جگہ سے آئے ہوئے صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا اور فلسطین کے اصل باشندوں یعنی فلسطینی عربوں کو اس سرزمین سے دھکیل پھینکا ۔ یوم منکبہ 15مئی کو منایا جاتا ہے اور اس دن فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی دنیا کی سب ست بڑی نا انصافی پر احتجاج کیا جاتا ہے ۔ جہاں یہ دن تاریخ میں فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی کا دن ہے وہاں موجودہ دور میں یہ دن اب فلسطینیوں کے ان کے وطن واپسی کی تحریک کا ایک یاد گار دن بن چکا ہے ۔ یعنی فلسطینیوں کا حق واپسی ۔ فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک ایک ایسی تحریک ہے کہ جس میں فلسطین کے عوام کا نعرہ ہے کہ وہ فلسطین واپس آئیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت بشمول عالمی ادارے بھی فلسطینیوں کے حق واپسی کو نا چاہتے ہوئے بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں ۔
موجودہ حالات کہ جس میں دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاءون کا شکار ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک اس عالمی وباء کے مقابلہ میں بے بس نظر آ رہے ہیں ایسے حالات میں نوجوان نسل کے سامنے یہ حقائق ضرور بیان کئے جانے چاہئیں کہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر سنہ1948ء میں ایک ایسے کورونا نے حملہ کیا ہے کہ جس کو اسرائیل کہا جاتا ہے ۔ اسرائیل سنہ1948ء کا ایک ایسا کورونا وائرس ہے کہ جس نے گذشتہ73برس میں فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم کی داستانیں رقم کر دی ہیں ۔ آج اس سنہ1948ء کے اسرائیل نامی کورونا وائرس کے باعث ہزاروں فلسطینی قید و بند میں ہیں ، لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں ، اپنی زمینوں اور اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں ، غزہ کی پٹی مسلسل 13برس سے اس اسرائیل کورونا کے باعث لاک ڈاءون کا شکار ہے جہاں بیس لاکھ سے زائد انسانی جانیں موت کی آغوش کے قریب جا پہنچی ہیں ۔ یہ وہ مختصر حالات ہیں کہ جن کو یہاں پر بیان کیا گیا ہے اور اگرفلسطین پر مسلط ہونے والے سنہ1948ء کے وکورونا وائرس اسرائیل کی ستم ظریفی اور ظلم کی داستانیں تحریر کی جائیں تو کئی سالوں کی محنت درکار ہو گی ۔ بہر حال ان حالات کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حالیہ حالات میں جہاں دنیا ایک کورونا وائرس سنہ2019کا مقابلہ کر رہی ہے وہاں اس دنیا کو اس سوچ کی طرف متوجہ کروانا ہے کہ اگر دنیا کی غیور قوموں اور ان کی حکومتوں نے سنہ1948ء میں دنیا میں وجود پانے والے کورونا وائرس یعنی اسرائیل کی روک تھام کی ہوتی تو شاید آج فلسطین میں خون کی ندیاں نہ بہائی جا رہی ہوتیں ۔ لہذاٰ یہ بات کہنا بے جا نہیں ہے کہ موجودہ کورونا وائرس ہو یا سنہ1948ء میں دنیا پر لگنے والا اسرائیل نامی کورونا وائرس ہوں دونوں ہی دنیائے انسانیت کے لئے سنگین خطرہ ہیں ۔
سنہ48ء کا یہ کورونا وائرس مسلسل نت نئے انداز سے دنیا میں ظلم اور بربریت کی داستان رقم کر رہاہے ۔ دہشت گردگروہوں کی مدد کرنے سے لے لے دوسرے ممالک میں قتل وغارت کرنے جیسے اقدامات اسرائیل کے لئے عام نوعیت کی بات تصور ہوتی ہے ۔ یہ اسرائیل نامی کورونا وائرس دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے من پسند افراد کو مالی مراعات سے نواز کر انارکی پیدا کرتا ہے تو ساتھ ساتھ دہشت گردی کو بھی فروغ دیتا ہے ۔ کشمیر کی بات کریں تو یہاں بھارتی جارحیت کو نت نئے انداز سے کشمیریوں پر جارحیت جاری رکھنے کے حربہ سکھانے والا یہ جرثومہ اسرائیل ہے ۔ آج فلسطین میں ہونے والے مظالم اور مقبوضۃ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو دیکھ کر واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلحہ سے لے کر قتل وغارت اور ظلم کے طریقوں میں ایک سو فیصد مماثلت پائی جاتی ہے ۔ یہ اسرائیل کورونا وائرس نہ صرف فلسطین پر قبضہ جمائے ہوئے ہے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن چکا ہے ۔
پاکستان میں بھی چند ایک ایسے نا عاقبت اندیش افراد موجود ہیں کہ جو اس سنہ48ء کے کورونا وائرس کے پھیلاءو کا باعث بن رہے ہیں اور زر غلامی میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ بانیان پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نظریات اور افکار کو بھی روند ڈالا ہے، نظریہ پاکستان کی کھلم کھلا دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ آج جب کسی کو علم ہوتا ہے کہ اسرائیل نواز لوگ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی پہنچ چکے ہیں تو وہ حیرت سے منہ کھولے ہی رہ جاتا ہے ۔ جب کوئی ایسا شخص کہ جس نے ماضی میں پاکستان کے دفاعی اداروں اور مسلح افواج میں خدمات انجام دی ہوتی ہیں اور پھر وہ نکل کر سامنے آتا ہے اور اسرائیل کی حمایت میں نت نئے انداز اپنا کراس بات کی کوشش کرتا ہے کہ جس کا مقصد پاکستان کو بھی اس سنہ 48ء کے اسرائیل نامی کورونا وائرس کا شکار کرنا ہوتا ہے ۔ یقینا سنگین صورتحال ہے ۔ موجودہ حالات میں کہ جب فلسطین سمیت دنیا بھر کو عالمی وباء کا سامنا ہے وہاں فلسطین کو اس وباء کے ساتھ ساتھ سنہ48ء میں لگنے والی خطر ناک صہیونی کورونا وائرس وباء کا سامنا ہے ۔ ایسے حالات میں کہ ایک طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کو ناپید کرنے اور فلسطین پر صہیونیوں کی غاصب ریاست اسرائیل کی مکمل اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش جاری ہے اور اس عنوان سے امریکی صدر نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ بھی جاری کیا ہے جس کے تحت پہلے امریکہ نے امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے نکال کر یروشلم یعنی القدس شہر میں منتقل کیا او ر دنیا کو یہ تاثر دیا کہ القدس شہر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت ہے تاہم دنیا کے تمام اور بیشتر ممالک نے امریکی فیصلہ اور اس اعلان کو یکسر مسترد کر دیا اور ثابت کیا کہ تاریخی و ثقافتی ہر اعتبار سے القدس شہر فلسطین کا ابدی دارلحکومت تھا اور ہے ۔ لہذا امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ فلسطین سے متعلق قدس کے علاقہ کی شناخت کو اسرائیل کی حمایت میں تبدیل کر دیں اور پوری دنیا خاموشی سے اس فیصلہ کو مان لے ۔ ان تمام حوادث کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے تحت فلسطینیوں پر دباءو جاری ہے کہ وہ فلسطین کا سودا کر دیں لیکن فلسطین کے تمام سیاسی و مذہبی عناصر نے متحدہ اور مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے امریکی صدر کی جانب سے پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل کو مسترد کر دیا ہے اور اسیے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے ۔ امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کورونا وائرس سے زیادہ خطر ناک وائرس یہ عرب حکمران بھی ہیں کہ جو اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے اور فلسطین کی شناخت کو مسخ کرنے کے ناپاک منصوبہ پر عمل پیرا ہیں ۔ اس کی ایک واضح مثال حال ہی میں عرب ممالک میں ایک ایسا ڈرامہ سیریل نشر کیا جا رہاہے جس میں نہ صرف فلسطین کی تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے بلکہ ڈرامہ کے مکالمہ میں غاصب اسرائیل کی حمایت اور اسرائیل کو قانونی جواز بھی دینے کی کوشش کی گئی ہے،اس ڈرامہ کے مکالمہ میں فلسطین کی سرزمین کو صہیونیوں کی سرزمین قرار دیا گیا ہے اور حتیٰ مکالمہ میں فلسطینیو پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر بھی چشم کشائی کے ساتھ ساتھ صہیونیوں کے ظلم کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے عوام پر سنہ1948ء کے بعد سے ہر دن ہی نکبہ بن کر گزر رہاہے اور فلسطین کو جہاں دنیاکے دیگر مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے وہاں سب سے بڑا مسئلہ فلسطین کی سرزمین مقدس پر باہر سے آ کر بس جانے والے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل یعنی سنہ1948ء کے کورونا وائرس کے مسلط ہونے کا مسئلہ ہے جس سے آج بھی فلسطینی عرب نبرد آزما ہے اور یہ فلسطینیوں کے مزاحمت ہی ہے کہ جس نے آج تک فلسطین کے مسئلہ کو حرارت اور دوام بخشی ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے غیور انسانوں کے دلوں میں ایک انگیزہ پیدا کر رکھا ہے ۔ اسرائیل اور حالیہ کورونا وائرس پوری دنیائے انسانیت کے لئے سنگین خطرہ ہیں ۔