سلامتی کونسل میں امریکی ویٹو: پاکستان نے ’مجرمانہ خاموشی‘ اور ’اخلاقی داغ‘ قرار دے دیا
اس ناکامی پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے اسے ’اس باوقار ادارے کی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب‘ قرار دیا۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جاری مستقل جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی کے مطالبے پر مبنی قرارداد کو امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے اس ناکامی کو عالمی ادارے کے ضمیر پر ’اخلاقی داغ‘ اور ایک ایسی ’مجرمانہ خاموشی‘ قرار دیا ہے جو قابض صہیونی ریاست کو فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔
بدھ کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اس قرارداد کے حق میں پندرہ میں سے چودہ ارکان نے ووٹ دیا، لیکن امریکہ نے تنہا مخالفت کرتے ہوئے اسے ویٹو کر دیا۔ خبر رساں ادارے کے مطابق، امریکی سفیر ڈوروتھی شیا نے ووٹنگ سے قبل دعویٰ کیا کہ یہ قرارداد صہیونی ریاست کی سلامتی کو نقصان پہنچائے گی اور جاری سفارتی کوششوں کو متاثر کرے گی، نیز یہ حماس کو تقویت دے کر قابض ریاست اور حماس کے درمیان جھوٹی برابری قائم کرتی ہے۔
قرارداد میں غزہ میں ’فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی‘، حماس اور دیگر گروہوں کے زیرِ حراست تمام افراد کی ’فوری، باوقار اور غیر مشروط رہائی‘ اور غزہ میں امدادی رسائی پر عائد تمام پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس ناکامی پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے اسے ’اس باوقار ادارے کی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو شدید افسوس ہے کہ کونسل ان دس منتخب ارکان کی پیش کردہ قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی جو ہماری تاریخ کی بدترین انسانی تباہی سے نمٹنے کی کوشش تھی۔‘امریکی ویٹو پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’آج کا ویٹو ایک انتہائی خطرناک پیغام دیتا ہے کہ دو ملین سے زائد فلسطینیوں کی زندگیاں، جو محصور، بھوکے اور مسلسل بمباری کا شکار ہیں، قربان کی جا سکتی ہیں۔
یہ نہ صرف اس کونسل کے ضمیر پر ایک اخلاقی داغ ہے، بلکہ ایک ایسا سیاسی لمحہ ہے جس کی گونج نسلوں تک سنائی دے گی۔‘امریکی جواز کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’ہم نے ایک بار پھر وہی پرانا بہانہ سنا کہ ’ابھی وقت مناسب نہیں‘ اور ’جاری مذاکرات کو جگہ دی جائے،‘ لیکن اور کتنی جگہ درکار ہے؟‘ پاکستانی مندوب نے غزہ کے بحران کو ’انسانیت، بین الاقوامی قانون اور اقدار کا انہدام‘ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ’یہ صرف جنگ نہیں، بلکہ ایک قوم کی منظم تباہی، جنگی جرائم اور نسل کشی ہے۔
‘غزہ میں محدود امداد کو ’تماشہ‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’فضائی امداد یا مسلح نگرانی میں دی جانے والی امداد کوئی حل نہیں… ان اقدامات کا دفاع عقلمندی نہیں بلکہ اخلاقی ناکامی ہے۔‘ انہوں نے قرارداد کی ناکامی کو ’مجرمانہ خاموشی‘ اور ’تباہی کی اجازت کا اشارہ‘ قرار دیا۔پاکستان نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے دیگر رکن ممالک سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنا مؤقف درست کریں، قبل اس کے کہ غزہ اس کونسل کی ساکھ پر ایک مستقل داغ بن جائے۔
چین کے سفیر فو کانگ نے بھی کہا کہ ووٹ کے نتائج بے نقاب کرتے ہیں کہ تنازع ختم نہ ہونے کی بنیادی وجہ امریکہ کی مسلسل رکاوٹ ہے۔ فرانسیسی سفیر جیروم بونافوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کونسل کو ذمہ داری ادا کرنے سے روک دیا گیا۔فلسطینی مندوب ریاض منصور نے اعلان کیا کہ وہ اب جنرل اسمبلی میں اسی قرارداد پر ووٹ لینے کی کوشش کریں گے۔تاہم، قابض اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے اس منصوبے کو ’وقت کا ضیاع‘ قرار دیا۔غزہ میں قابض اسرائیل کی جارحیت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے، جہاں امداد کی فراہمی انتہائی محدود ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق ناکافی ہے۔
بدھ کو بھی صہیونی بمباری سے کم از کم سولہ فلسطینی شہید ہوئے، جبکہ منگل کو ایک امدادی مرکز کے قریب صہیونی فوج کی فائرنگ سے ستائیس افراد جان سے گئے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک قابض اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد کم از کم اکتالس ہزار نو سو اٹھارہ ہو چکی ہے۔