اسلامی(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوا، جس میں رکن ممالک نے شرکت کی۔ پاکستان کی نمائندگی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی، جنہوں نے فلسطین کے عوام کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی۔
اجلاس کے دوران فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی جارحیت، جبری نقل مکانی، اور فلسطینی سرزمین پر قبضے کے منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزرائے خارجہ نے متفقہ طور پر عرب منصوبے کے تحت غزہ کی تعمیر نو کی حمایت کی اور فلسطینی عوام کو جبراً غزہ سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مسترد کر دیا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور عرب لیگ کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں پر جاری مظالم کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرے اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو عالمی قوانین کی پاسداری کا پابند بنائے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اجلاس میں فلسطین کی بگڑتی ہوئی صورتحال، انسانی بحران، اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے خلاف "غیر قانونی اور غیر اخلاقی” منصوبوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔ دفتر خارجہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ X پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ "پاکستان فلسطینی عوام اور ان کے منصفانہ مقصد کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا۔” اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بے دخلی، قبضے، جارحیت، اور تباہی کی پالیسیوں کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے، جبکہ یہ اعادہ کیا گیا کہ فلسطین کا مسئلہ اسلامی دنیا کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا جب عرب رہنماؤں نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے 53 بلین ڈالر مالیت کے مصری منصوبے کو منظور کر لیا۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں کو جبری بے دخلی سے بچانے کے لیے پیش کیا گیا، جو کہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے "مشرق وسطیٰ رویرا” کے تصور کے برعکس ہے۔ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد غزہ سے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس علاقے کو ایک بین الاقوامی سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس تجویز کو مسلم ممالک اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اس میں فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک، مصر اور اردن میں منتقل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اعلان کیا کہ مصر فلسطینیوں کے تعاون سے غزہ میں ایک آزاد، پیشہ ور فلسطینی ٹیکنوکریٹس کی انتظامی کمیٹی کے قیام پر کام کر رہا ہے تاکہ جنگ کے بعد علاقے کو مستحکم کیا جا سکے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے عرب لیگ کی جانب سے مصری منصوبے کی منظوری کا خیر مقدم کیا اور اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کے لیے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو یروشلم سمیت تمام مقبوضہ علاقوں سے مکمل انخلا کرنا ہوگا اور فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے عالمی برادری کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔
پاکستان، جو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں رکھتا، ہمیشہ سے فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتا آیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں اسحاق ڈار کی شرکت اس عزم کی توثیق ہے کہ پاکستان فلسطینی عوام کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن سفارتی کوشش جاری رکھے گا۔