ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ جسے عام زبان میں جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے ۔ جمعہ کا دن ہفتہ کے تمام ایام میں سردار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پھر رمضان المبارک جیسے متبرک اور روحانی مہینہ میں آنے والا آخری جمعہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ فضیلت اور با برکت تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ جمعہ ہمیشہ ایسے ایام میں آتا ہے کہ جب رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی شب ہائے قدر کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور اس کے اختتام یا درمیان میں جمعۃ الوداع آتا ہے ۔ یہ دن مذہبی فضیلت اور عبادت کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا دن قرار دیا گیا ہے ۔ جہاں اس دن کو دنیا بھر کے مسلمان مذہبی اور عقیدتی رسوم انجام دیتے ہیں وہاں اس دن کی اہمیت عالمی سطح پر ’’یوم القدس‘‘ کے عنوان سے مزید بڑھ گئی ہے ۔ یعنی جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منایا جانا نہ صرف عالم اسلام کے لئے بلکہ پوردی دنیا کے لئے اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔
یوم القدس سے مراد یقینا مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس او ر انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین ہی ہے ۔ جی ہاں وہی فلسطین کہ جہاں ہزاروں انبیاء علیہم السلام کی آمد رہی اور پھر معراج کے لئے سفر مبارک کے وقت پہلے آپ (ص) کو بھی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ جو کہ سر زمین فلسطین پر واقع ہے یہاں لایا گیا تھا ۔
سرزمین مقدس فلسطین اور اس کے باسی سنہ 1948ء سے عالمی سامراج کی شیطانی چالوں کا نشانہ بن کر یہاں قائم کی جانے والی ایک یہودیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہیں ۔ یہاں کے باسی گذشتہ ایک سو برس سے اس زمین پر صہیونیوں کی مکاریوں اور فریب کاریوں کا سامنا کرتے آئے ہیں ۔ صہیونیوں کے مقاصد میں جہاں فلسطین پر یہودیوں کے لئے علیحدہ ریاست قائم کرنا تھا وہاں ساتھ ساتھ قبلہ اول بیت المقدس پر بھی صہیونی اپنا مکمل تسلط چاہتے ہیں ۔ اگرچہ تاحال صہیونی اپنی اس چال میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے پشت پناہ امریکی حکومت اور صدر ٹرمپ مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ بیت المقدس پر صہیونیوں کا مکمل تسلط قائم کر دیا جائے اس گھناءونے فعل کو انجام دینے کے لئے امریکی حکومت نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ منصوبہ بھی تاحال فلسطینیوں کی مزاحمت اور استقامت کے باعث ناکام ہو چکا ہے ۔
فلسطین موجودہ حالات میں طول تاریخ کے اعتبار سے سنگین ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ فلسطین کا سودا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ قبلہ اول بیت المقدس پر امریکی سربراہی میں عرب حکمرانوں کے تعاون سے سودے بازی کی کوشش بھی جاری ہے ۔ ایسے حالات میں فلسطینی عوام نے تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔ ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ یعنی یوم القدس جو نہ صرف فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کا دن ہے بلکہ قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی تحریک میں ایک کلیدی حیثیت کا حامل بھی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یوم القدس ایک ایسا دن ہے جس کو علماء اور فقہا ء نے اسلام اور مسلمین کا دن قرار دیا ہے ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی ;231; نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیتے ہوئے اس دن کو دنیا بھر کے مظلوموں کا دن قرار دیا ہے ۔ مظلوم فلسطین میں ہو یا کشمیر میں ۔ یہ یوم القدس سب مظلوموں کا دن ہے ۔ یہ دن فلسطین کا دن ہے، یہ دن کشمیر کا دن ہے،یہ دن افغانستان کے ان مظلوموں کا دن ہے جن کو داعش جیسے سفاک دہشت گردوں نے حالیہ دنوں اسپتالوں میں قتل کیا ہے ۔ یہ دن عرا ق کا دن ہے کہ جہاں عالمی دہشت گرد امریکہ کے ہاتھوں ہزاروں عراقیوں کا قتل ہو اہے ۔ یہ دن یمن کا دن ہے، کہ جہاں گذشتہ پانچ برس سے انسانی زندگیاں موت کی لکیر تک جا پہنچی ہیں اور اس کا سبب امریکی سرپرستی میں عرب حکمرانوں کی یمن پر مسلط کردی جنگ ہے ۔
حقیقت میں یوم القدس مسلمانوں اور انسانیت کے اتحاد و یکجہتی کا دن ہے ۔ یہ دن دنیا بھر کی ایسی اقوام کا دن ہے کہ جن پر عالمی سامراجی قوتوں نے ظلم و ستم روا رکھے ہیں ۔ یہ دن مظلوموں کا دن ہے ۔ یہ دن ظالم کے خلاف نفرت اور بیزاری کا دن ہے ۔ جمعۃ الوداع یوم القدس ایک ایسا عالمگیر دن ہے کہ جو فلسطین سے لے کر کشمیر تک کے مظلوموں کی داد رسی اور ان کے لئے ایک نئی امید کی کرن کی مانند ہے ۔ یوم القدس جہاں ملت فلسطین کو تقویت بخشتا ہے وہاں ساتھ سات مقبوضہ کشمیرکے ان مظلوم اور نہتے انسانوں کو بھی ایک نوید سحر سناتا ہے کہ جو گذشتہ ستر برس سے ہندوستان کی ریاستی جبر اور دہشت گردی کا شکار ہے ۔ ایک طرف غزہ کی پٹی ہے کہ جو غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ظلم اور شکنجہ کے باعث گذشتہ بارہ سال سے لاک ڈاءون کا شکار ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کی وادی ہے کہ جہاں ہندوستانی سامراج اور شیطان صفت مودی کے ظلم و بربریت کے باعث گذشتہ نو ماہ سے لاک ڈاءون ہے ۔
آئیے اس برس یوم القدس کے دن پاکستان بھر میں متحد ہو کر فلسطین و کشمیر کے عوام سے بھرپور یکجہتی کریں ۔ فلسطین و کشمیر سے یکجہتی کرنابانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے موقف سے تجدید کرنا ہے ۔ اسی طرح اسلامی نقطہ نگاہ سے علماء و فقہاء نے اس دن کو شرعی اور اخلاقی فریضہ بھی قرار دیا ہے ۔ یوم القدس ایک ایسا عالمگیر دن ہے کہ جس دن دنیا بھر کے با شعور او ر حریت پسند افراد بغیر کسی مذہب کی تفریق کے گھروں سے نکل کر دنیا بھر کے مظلوموں بالخصوص ملت مظلوم فلسطین کی حمایت میں نکلتے ہیں ۔ یہ دن نہ صرف مظلوموں کی حمایت کا دن ہے بلکہ ظالموں سے نفرت اور بیزاری کا دن ہے ۔ یوم القدس دنیا بھر کے حریت پسندوں کو درس دیتا ہے کہ ظالم کسی بھی شکل میں ہو کسی بھی قوم قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے اور مظلوم کسی بھی قوم قبیلہ رنگ ونسل سے ہو اس کی حمایت میں کھڑے ہونا چاہئیے ۔
موجودہ حالات میں یوم القدس ایسے موقع پر آ رہا ہے کہ جب ایک طرف دنیا کو کورونا وائرس کا سامنا ہے لیکن ایسے حالات میں بھی دنیا کے غیور انسانوں کی طرح پاکستان کے غیور عوام نے فلسطین و کشمیر کے مظلوم اور نہتے عوام کو فراموش نہیں کیا ہے اور یوم القدس کے موقع پر مظلوموں کی حمایت کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہم میں سے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے جمعۃ الوداع یوم القدس کو فلسطین و کشمیر کے عوام سے یکجہتی کریں اور دنیا کی ظالم قوتوں کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان کے عوام عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل سمیت ہندوستان جیسے پٹھوءوں کے خلاف ہیں اور فلسطین و کشمیر کے مظلوموں کے ساتھ ہیں ۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی