غزہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور اسرائیل کے درمیان ہفتہ اور اتوار دو دن جاری رہنے والی جنگ اگرچہ زمانے اور علاقے کے اعتبار سے ایک محدود جنگ تھی لیکن ایک انتہائی اہم اور علامتی واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ فروری 2018ء سے فلسطینیوں نے اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے درمیان سرحدی دیوار پر حق واپسی مارچ کے عنوان سے ہفتہ وار احتجاجی ریلیوں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر ہفتہ جمعہ کے دن اسرائیلی سرحد کے قریب کثیر تعداد میں فلسطینی جمع ہو کر غاصب صہیونی رژیم کے ناجائز قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ صہیونی رژیم نے اس احتجاج کے ردعمل میں غزہ کی پٹی کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کی جارحیت روکنے اور اسے ہوائی حملوں سے باز رکھنے کیلئے جوابی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہودی بستیوں کی طرف راکٹ برسائے۔
اس دو روزہ جنگ میں 25 بیگناہ فلسطینی شہری شہید ہو گئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے جبکہ 350 گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔ فلسطینی مجاہدین کی جوابی کاروائی سودمند ثابت ہوئی اور 48 گھنٹے بعد اسرائیل نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ فرانسوی اخبار "لومونڈ” نے اس جنگ میں فلسطینی گروہوں کو فاتح قرار دیا ہے اور اسرائیلی فوج کو شکست کا شکار کہا ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ اہالی غزہ کے خلاف اسرائیل کا حالیہ جارحانہ اقدام بنجمن نیتن یاہو کا دوبارہ بطور وزیراعظم اسرائیل منتخب ہونے کے بعد پہلا اقدام ہے لہذا بعض فلسطینی ماہرین اسے نیتن یاہو کی جانب سے اپنے اقتدار کے نئے دور کے آغاز پر وارننگ قرار دے رہے ہیں۔ گویا وہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کو خبردار کرنا چاہتا تھا کہ اس کے دوبارہ وزیراعظم منتخب ہو جانے کے بعد غزہ کی پٹی کے خلاف فوجی اقدامات میں تیزی آئے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کے زیادہ طویل دور حکومت میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ہوائی حملے کوئی نئی بات نہیں جس کے کچھ نئے اثرات ظاہر ہونے کی توقع کی جائے۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکام فلسطینیوں کی جانب سے پرامن واپسی مارچ جیسی سول تحریک سے شدید وحشت زدہ ہیں۔
فلسطینیوں کے اس اقدام کی وجہ سے ایک طرف مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات محدود ہو جائیں گے کیونکہ اسرائیل کے عرب اور مغربی اتحادی ایسی صورتحال میں اس کے ظالمانہ اقدامات کی کھلی حمایت نہیں کر سکتے۔ البتہ امریکی وزیر خارجہ کی گستاخی اور بے شرمی کا حساب علیحدہ ہے۔ دوسری طرف پرامن جدوجہد ہمیشہ پرامن جدوجہد باقی نہیں رہتی اور فلسطینی مجاہدین جن کے پاس حتی 100 کلومیٹر رینج کے میزائل بھی موجود ہیں ضرورت پڑنے پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے راست اقدام کے تحت سیدھا قدس شریف کی طرف عوامی مارچ بھی شروع کر سکتے ہیں۔ اسرائیل ایسی ممکنہ صورتحال کو اپنے لئے انتہائی خطرناک اور فیصلہ تصور کرتا ہے اور اس سے شدید خوفزدہ ہے۔
2)۔ غزہ کی حالیہ جنگ میں 25 فلسطینیوں کی شہادت کے مقابلے میں کتنے اسرائیلی مارے گئے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ اسرائیلی حکام ہر گز ایسی خبریں نشر نہیں ہونے دیتے۔ البتہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اسلامی مزاحمت نے مقبوضہ فلسطین کے علاقے پر 690 میزائل داغے ہیں جن میں سے 450 میزائیل اسرائیل کے رہائشی یا دفتری عمارتوں پر لگے ہیں۔ اسرائیلی حکام، امدادی تنظیموں اور اسپتالوں کے ذرائع کی جانب سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق 4 اسرائیلی شہری ہلاک جبکہ 30 زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ اصول طور پر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دسیوں میں ہونی چاہئے تھی۔
بالکل یہی وجہ تھی کہ جنگ کے دوسرے دن سے ہی اندرونی حلقوں خاص طور پر آرمی کی جانب سے نیتن یاہو پر جنگ بندی کیلئے شدید دباو پڑنا شروع ہو گیا تھا اور آخرکار اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے پریشانی کے ساتھ اسے قبول کر لیا۔ اس بار بھی اقوام متحدہ اور مصری حکام ہمیشہ کی طرح ٹھیک اس وقت میدان میں کودے جب اسرائیل مکمل طور پر بے بس ہو چکا تھا اور جنگ بندی کی پیشکش کر دی۔ خود اسرائیل بھی مصر کو جنگ بندی کی پیشکش کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ آخرکار ہفتہ کے روز شروع ہونے والی جنگ اتوار کے دن اختتام پذیر ہو گئی۔ فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی قبول کئے جانا غیر متوقع امر نہیں تھا کیونکہ وہ جنگ نہیں چاہتے اور اگر چاہتے بھی ہیں تو اس کے وقت کے تعین کا اختیار اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو سونپنا نہیں چاہتے۔
3)۔ اسرائیل کچھ عرصے سے خطے میں انتشار پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ حال ہی میں اس کی جانب سے لبنان کو دھمکیاں، شام کے خلاف جارحانہ اقدامات، غزہ کی پٹی پر گاہے بگاہے ہوائی حملے اور یکم رمضان مبارک کو مسجد اقصی میں اشتعال انگیز اقدام اس مدعا کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ درحقیقت اسرائیل کا احساس ایسی ریاست کے احساس جیسا ہے جو چاروں طرف سے اپنے مخالفین کے گھیرے میں محصور ہو اور اس کے پاس سانس لینے کیلئے کم از کم ایک طرف کی دیوار گرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا ہو۔ یوں ایسی ریاست کیلئے اہم نہیں کہ اس کے اقدامات کے کیا نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ موجودہ حالات سے اس کی بے توجہی کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔ ایسی ریاست رسک کی بنیاد پر اقدامات انجام دیتی ہے تاکہ شاید درپیش حالات میں بہتری لا سکے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم یہ جانتے ہوئے کہ وہ موجودہ حالات کو تبدیل نہیں کر سکتی اپنا سر پتھر سے ٹکرا رہی ہے تاکہ اگر ممکن ہو تو کم ترین نتائج حاصل کر سکے۔ اسرائیل شام سے ایران کے حمایت یافتہ مزاحمتی عناصر کو نکال باہر کرنے سے عاجز ہے لہذا روس کے ذریعے ایران کو بھجوائے گئے پیغامات میں اس بات پر زور دیتی ہے کہ شام میں ان عناصر کے کردار پر اسے اعتماد میں لیا جائے جبکہ وہ ایسی پوزیشن میں نہیں کہ اس بارے میں کوئی موثر کردار ادا کر سکے۔
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم ایک عرصے سے خطے کی سیاسی مساواتوں سے باہر نکل چکی ہے لہذا وہ ہر قسم کے حالات اور نتائج قبول کرنے اور ہر قسم کے پیش کردہ فارمولے کو ماننے پر مجبور ہے۔ غزہ کے خلاف حالیہ جارحانہ اقدامات کے ذریعے اسرائیل اسلامی مزاحمت کی تنظیموں حماس اور اسلامک جہاد پر ایک نئی مساوات تھونپنے کے درپے تھا لیکن اسے اپنا کھیل اس وقت الٹا پڑ گیا جب حماس اور اسلامک جہاد نے اسی بہانے اپنے نئے میزائل متعارف کروا دیے۔ ان نئے میزائلوں کی رینج بھی زیادہ ہے اور تباہی پھیلانے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔ اسلامی مزاحمت نے پہلی بار اس نئی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی طرح فلسطینی جہادی تنظیموں نے ڈیمونا نیوکلیئر پاور پلانٹ اور اس سے بھی زیادہ دور "عراد” شہر کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی۔ یہ بھی اسرائیل کیلئے ایک غیر متوقع اقدام تھا۔ اس جنگ میں اسلامی مزاحمت ایک قدم آگے بڑھی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل اپنی انسانی اور فوجی قوت کے اعتبار سے گذشتہ پوزیشن پر ہی کھڑا ہے۔ یہ امر بذات خود مستقبل کی صورتحال واضح کرنے کیلئے ایک چھوٹی سطح کے نمونے کے طور پر کافی ہے۔ مستقبل کی جنگ میں یقیناً فلسطینی مجاہدین کی طرف سے کوئی نیا پتہ سامنے آئے گا اور اسرائیل اسی حد تک رہنے پر مجبور ہو جائے گا۔
4)۔ عرب دنیا ایک بار پھر آزمائش کے مرحلے سے گزری ہے اور دوبارہ یہ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین میں موثر سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ عرب حکمران بہت اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے خلاف جو میزائل فائر کئے گئے وہ ہی جنگ رکنے کا باعث بنے ہیں۔ اسی طرح وہ بخوبی اس امر سے بھی واقف ہیں کہ اگر یہ میزائل غزہ میں بھی تیار کئے گئے ہوں تب بھی ان کے پیچھے ایران کی فنی اور مالی مدد کارفرما ہے۔ دوسری طرف گذشتہ کچھ عرصے میں بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے امریکہ کو شام کے میدان میں جھونک کر ایران کے مقابلے میں لا کھڑا کرنے کی سرتوڑ اور ناکام کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جبکہ ایران غزہ کی پٹی کے ذریعے خود اسرائیل کے مقابلے میں آن کھڑا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ امریکہ نے تو میدان جنگ میں آنے کی جرات نہیں دکھائی لیکن ایران میدان جنگ میں کود پڑا ہے۔ اس میں بنجمن نیتن یاہو اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کیلئے واضح پیغام ہے جو ایران سے ٹکر لینے کا شوق ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ جب ان کے باپ امریکہ میں ایران سے ٹکر لینے کی جرات نہیں تو انہیں اپنی حیثیت خود ہی جان لینی چاہئے۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ جنگ میں عرب دنیا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ "وجود” نہیں رکھتی۔ خود عرب حکمران کافی عرصے سے یہ کہتے آ رہے تھے اور حال ہی میں قطر کے وزیراعظم نے تو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ "امت عربی ایک بے معنی لفظ ہے اور عرب دنیا حقیقت میں اپنا وجود کھو چکی ہے۔ غزہ کی پٹی پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران عرب ممالک سے فوجی یا فوجی سازوسامان غزہ بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی ان کی جانب سے کسی قسم کی مالی مدد درکار تھی۔ کافی تھا وہ اس بارے میں ایک ہنگامی اجلاس بلاتے اور اس بات کا اظہار کرتے کہ ہم فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن وہ اس حد تک بھی فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ عرب حکمران جنگ کی خبریں سی این این اور بی بی سی یا اسرائیلی نیوز چینلز کے ذریعے دیکھ رہے تھے۔ لہذا اسرائیل کے ظالمانہ ہوائی حملوں میں اپنے دو بیٹوں کی شہادت پر اس مظلوم فلسطینی خاتون نے عرب حکمرانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا کہ تم لوگ ہمارے بچوں کے قاتل ہو اور تمہیں جوابگو ہونا چاہئے۔ میری نظر میں وہ وقت آن پہنچا ہے جب اسلامی مزاحمت کو ایک "مزاحمتی عرب قوم” یا "مزاحمتی عرب لیگ” تشکیل دینے کیلئے ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہئے۔ یقیناً ایسا اقدام عرب دنیا کی صورتحال بدل دے گا اور ان کا کھویا ہوا وقار اور عزت واپس لوٹانے میں موثر ثابت ہو گا۔
5)۔ اسرائیلی فوج کی دو روزہ جارحیت میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے اعلی سطحی رہنماوں میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اسرائیل کے وحشیانہ پن کا نتیجہ عام شہریوں کے گھروں کی مسماری اور بیگناہ خواتین اور بچوں کے قتل عام کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ صرف بریگیڈیئر توفیق ابو نعیم کا گھر مسمار ہوا اور حامد الخضری کی گاڑی میزائل حملے کا نشانہ بنی۔ نہ تو حماس کو کوئی بڑا نقصان پہنچا اور نہ ہی اسلامک جہاد پر کوئی کاری ضرب وارد ہوئی۔ یہ امر بذات خود اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ اسرائیل کیلئے صرف بربریت ہی اہم تھی اور اس کے نتائج کی اہمیت نہیں تھی۔ شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ ہفتہ اور اتوار کی جارحیت بنجمن نیتن یاہو کا اظہار وجود تھا۔ ایسا اظہار وجود جس کا نہ ہونا اسرائیلی حکمرانوں کے زیادہ فائدے میں تھا۔
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی