(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)طوفان اقصیٰ کا معرکہ جاری ہے۔ اس معرکہ نے امریکہ کی عالمی اجارہ داری کو چیلنج کر رکھا ہے۔ ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی ساکھ کو عوامی سطح پر اور فوجی سطح پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عوامی سطح پر دنیا بھر میں اسرائیل کو شدید احتجاج کا سامنا ہے اسی طرح فوجی سطح پر بھی غاصب صہیونی حکومت شدید دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے۔ فوجی نقصانات کی تفصیل کو اسرائیلی غاصب حکومت چھپا رہی ہے۔
بہر حال ایسے حالات میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت کو فلسطینی مزاحمتی محور کے گروہوں حماس، جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ اور یمن کی انصار اللہ کے ساتھ ساتھ براہ راست ایران سے کاری ضرب لگ چکی ہے تو اب غاصب صہیونی حکومت اپنے ان زخموں کو چھپانے کے لئے از سر نو جنگی حربوں کا استعمال کر رہی ہے۔ ان حربوں میں ایک غزہ کے عوام کو بھوک اور پیاس سے مارنا ہے۔ تاکہ غزہ کے لوگ علاقہ خالی کریں اور نکل جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکہ اور اسرائیل کو مقاصد کو 70 فیصد کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ باقی ماندہ کامیابی حماس و جہاد اسلامی کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی فوجی قیدیوں کی رہائی کے معاملہ سے مربوط ہے۔
اسی طرح لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ ہونے والا معرکہ بھی ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ کیونکہ اس معرکہ میں غاصب صیہونی حکومت کو سات اکتوبر کے بعد جو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا وہ شمال فلسطین سے دو لاکھ صیہونی آبادکاروں کی نقل مکانی تھی جو تا حال واپس نہیں آئے ہیں اور اب یہ صہیونی آبادکار شمال فلسطین کو اپنے لئے مکمل غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات کچھ حیفا اور تل ابیب میں ایران کے براہ راست میزائل گرنے سے بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ جہاں سے دسیوں ہزار صہیونی آباد کار سمندری راستوں سے قبرص اور یونان جا چکے ہیں اور اب واپس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کی کاروائیوں کے نتیجہ میں بحیرہ احمر میں اسرائیل کے بحری جہازوں کا مکمل راستہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ ایلات کی بندرگاہ مفلوج ہو چکی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا اور یہ تاثر دیا کہ اب مزاحمت ختم ہو چکی ہے لیکن شہید یحی سنوار اور شہید حسن نصر اللہ سمیت متعدد رہنماؤں کی شہادت کے بعد فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی طاقت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے بر عکس مزاحمت کی کاروائیوں میں تیزی نظر آن رہی ہے۔ لبنان میں بھی حزب اللہ نے لبنان کو اسرائیل کے خانہ جنگی کے منصوبہ سے بچانے کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا تاہم جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے داخلہ کے معاملہ پر حزب اللہ نے باقاعدہ غاصب صہیونی فوج کو روک رکھا ہے۔
یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ رہنماؤں اور شخصیات کی شہادت کے بعد فلسطین اور لبنان میں مزاحمت بالکل کمزور نہیں ہوئی۔ اس محاذ پر اور اس طرح کے جنگی حربوں میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے۔
اب موجودہ صورتحال میں کہ جب تمام تر حربے ناکارہ ہو چکے ہیں، امریکہ اور اسرائیل ہزاروں انسانوں کو غزہ و لبنان میں قتل کر چکے ہیں، غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا چکے ہیں، بیروت میں تباہی پھیلا چکے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔
ایسے حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک پرانا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے یعنی نیا مشرق وسطیٰ کی تعمیر کرنا۔ یہ خواب امریکہ نے سنہ ۲۰۰۱ میں دیکھا تھا اور گذشتہ 25 سالوں میں اس خواب کو خطے میں موجود مزاحمت نے شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ہے۔
شام کی تبدیل ہونے والی صورتحال کے بعد امریکہ کو ترکی اور کچھ عرب حکومتوں کی مدد سے اب نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا موقع دستیاب ہوا ہے۔ اس عنوان سے امریکی حکومت چاہتی ہے کہ وہ خطے میں مزاحمتی قوتوں بالخصوص حماس اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرے۔ لہذا فلسطین میں امریکی ایلچی ویٹکوف اور لبنان میں تھامس براک اس کام کو انجام دینے کے لیے لبنانی حکومت کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔
حماس نے امریکہ کو واضح جواب دیا ہے کہ حماس غیر مسلح نہیں ہو گی۔ اسی طرح لبنان میں بھی یہ دباؤ جاری ہے اور لبنانی وزیر اعظم نواف سلام کے ذریعہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے۔ اصل میں امریکی حکومت اور غاصب صہیونی حکومت سمجھتی ہے کہ مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت اور بالخصوص اب سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اس کام کو تیزی سے انجام دیا جائے۔ بہر یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد بغیر کسی فیصلہ کے ملتوی ہو چکا ہے۔ لیکن حزب اللہ واضح کر چکی ہے کہ حزب اللہ لبنان کے دفاع سے دستبردار نہیں ہو گی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ فلسطین میں حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کرنے والوں میں یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک جن میں سعودی عرب، قطر، بحرین، امارات اور مصر سمیت متعدد شامل ہیں۔ اسی طرح لبنان کی حکومت پر امریکہ اور سعودی عرب کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا دباؤ ہے۔
بہر حال حماس اور حزب اللہ کا اعلان ہے کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوں گے۔ بلکہ جو لوگ مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں فکر مند ہیں ان کو غزہ و لبنان پر جاری صہیونی حملوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہییے۔ انسانوں کی نسل کشی پر خاموش مجرم حکومتیں مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں بیانات دے رہی ہیں۔
خطے کی اس تازہ ترین صورتحال پر عالمی سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے اب امریکہ و اسرائیل حماس و حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں تاہم آئندہ چند ماہ میں غاصب صہیونی گینگ اسرائیل لبنان پر ایک بڑی جنگ مسلط کر سکتی ہے تا کہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کیا جائے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر امریکہ اور اسرائیل کی ایک اور بڑی غلطی ہو گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اب بین الاقوامی حالات میں شدت اور تیزی آ چکی ہے، اور خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں یہ رفتار اور بھی زیادہ ہے۔لہذا امریکی صدر نے غاصب صھیونی حکومت کو گرین سگنل دے رکھا ہے کہ وہ امریکہ کے "نیا مشرقِ وسطیٰ” کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنائے اور نقشہ کو مکمل کرے۔ اس نقشہ کو مکمل کرنے کے لئے امریکہ کو عرب حکومتوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر کے بقول، وقت آ گیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کے مسئلے کو حل کیا جائے یعنی غیر مسلح کیا جائے تا کہ نیا مشرق وسطیٰ تشکیل پائے۔
جہاں تک لبنان کی بات ہے تو لبنان کا مسئلہ اس وقت سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جب سے شام کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، کیونکہ لبنان کی تاریخ ہمیشہ براہِ راست دمشق کی تبدیلیوں سے جڑی رہی ہے۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ، جسے یہ کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلحہ لبنان کی فوج کے حوالے کیا جائے، سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے ساتھ اور اسلحہ چھوڑنے کے الٹی میٹم سے شروع ہوا۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس باراک نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر داخلی مذاکرات میں حزب اللہ کے اسلحہ چھوڑنے پر اتفاق نہ ہوا تو لبنان کے کچھ حصے اس سے الگ کر دیے جائیں گے۔ یعنی امریکہ خود مختار ممالک کو توڑنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یقینی طور پر امریکہ اس کام کے لئے شام کی دہشتگرد گروہوں اور جولانی کے ساتھ غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کا سہارا لے گا۔
تاریخی طور پر شام کی حکومت لبنان کی زمین پر نظر رکھتی آئی ہے، خصوصاً شمالی علاقوں جیسے طرابلس اور حتیٰ کہ بیروت کو بھی اپنی سرزمین سمجھتی رہی ہے۔ اب جبکہ تکفیری گروہ الجولانی کی شام میں حکومت آ چکی ہے، جو مسلسل فرقہ وارانہ بنیادوں پر اسرار ہے۔لہذا یہ خطرہ موجود ہے کہ امریکی منصوبوں کی تکمیل کے لئے جولانی اس بہانے اپنے ناراض اور مایوس کارندوں کو لبنان کے شیعہ مسلمانوں سے لڑنے پر اکسا سکتا ہے۔
یعنی اب ایک نیا اتحاد منظر عام پر آ رہا ہے جسے غربی،عربی اور عربی اتحاد کہا جاسکتا ہے اور شاید یہئ نیا مشرق وسطیٰ کے منصوبہ کا نیا نام ہے۔
یعنی یہ مغربی-عبری-عربی اتحاد پہلے یہ کوشش کرے گا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگی تنازعہ کو لبنان کی خانہ جنگی میں بدل دے، تاکہ اصل دشمن کے خلاف اتحاد ٹوٹ جائے۔
دوسری طرف تکفیریوں کو لبنان میں گھسیٹ لایا جائے تاکہ حزب اللہ سرحد پر اسرائیل کے بجائے تکفیریوں سے لڑے۔
اس دوران لبنان کی حکومت، خاص طور پر مغرب نواز وزیرِاعظم نواف سلام مختلف وجوہات سے حزب اللہ کے ساتھ ٹکر لے رہے ہیں تا کہ تناؤ کی صورتحال میں اضافہ ہو۔ لبنان کے وزیرِاعظم نواف سلام کے اس بیان کہ سال کے آخر تک فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کر دے گی، نے ملک میں بڑے ردعمل کو جنم دیا۔ عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عوامی احتجاج شروع ہو چکے ہیں۔ لبنان کی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی حلقوں سمیت لبنان کی فوج میں بھی حزب اللہ کی بڑی حمایت موجود ہے۔ چونکہ موجودہ لبنانی حکومت جو باقاعدہ امریکی و سعودی اشاروں پر ناچ رہی ہے یہ بات بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ اسلحہ نہیں چھوڑے گی، اس لیے شاید یہ تجزیہ زیادہ درست ہو کہ نواف سلام کا اصل مقصد مغربی-عربی-عبری اتحاد کے دباؤ سے لبنان کو وقتی طور پر نکالنا ہے۔ کیونکہ امریکہ نے 60 دن کی مہلت دی ہے، مگر وزیرِاعظم پانچ مہینے کا وقت بتا رہے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ سال کے اختتام تک ہمیں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
حزب اللہ اس منظرنامے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ لبنان کے عوام کی اکثریت اور کم از کم فوج کے 30 فیصد اہلکار بھی حزب اللہ کی حمایت کریں گے۔ لبنان کو بلا شبہ بڑی جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؛
ایک طرف مغرب، امریکہ، اسرائیل اور شام کے تکفیری گروہ،
دوسری طرف حزب اللہ اور اکثریت لبنانی عوام جو اپنے وطن کی حفاظت چاہتے ہیں اور اسرائیل کو اصل دشمن سمجھتے ہیں۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِخارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یقینی طور پر ایران کے سیکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں، اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہوں گے۔
ان دنوں سعودی عرب، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنان کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور یہ معاملہ ایران-سعودی تعاون کے برعکس ہے۔ یہ پیش رفت مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کے لیے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔
ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپ اور عربی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان