تقریبا ایک سال سے ڈیل آف سینچری کا نام بار ہا سننے میں آ رہا ہے جس کا تعلق فلسطین سے ہے ۔
یہ منصوبہ ویسے تو امریکا کی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اس منصوبے کے اصلی مرکز ہیں اور ان کے مشورے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر اور ان کے داماد جیئرڈ کوشنر نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا ۔
منصوبے کا اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن اس کے بارے میں اطلاعات عمدا لیک کی گئیں تاکہ رد عمل کا اندازہ لگایا جا سکے ۔ ایک اطلاع یہ لیک ہو کر سامنے آئی ہے کہ اس منصوبے کے تحت بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے اسرائیل کے دار الحکومت بنا دیا جائے گا اور امریکا نے باقاعدہ اس کا اعلان بھی کر دیا اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا ۔
یہ اطلاع بھی لیک ہوئی کہ مغربی کنارے کے علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا، ایک حصے کا انتظام اردن کے تحت ہوگا اور دوسرا حصہ فلسطینیوں کے پاس رہے گا ۔ یہ اطلاع بھی لیک کی گئی کہ جو فلسطینی مختلف ممالک میں فلسطین کے اندر پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں، انہیں اپنے وطن یا گھر واپسی کے حق سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا جائے گا کیونکہ ان کے علاقوں پر صیہونی حکومت نے ناجائز طریقے سے کالونیوں کی تعمیرات کرکے یہودیوں کو آباد کر دیا ہے۔
اطلاعات لیک ہوتی رہیں اور یہ بھی کہا جاتا رہا کہ کچھ ہی دنوں یا کچھ یہ ہفتے میں ڈیل آف سینچری کا اعلان کر دیا جائے گا۔ پھر اس درمیاں یہ خبریں آنے لگیں کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فی الحال ڈیل آف سینچری کے اعلان کو ملتوی کر دے ۔
اسرائیلی تجزیہ نگار شولمو شامیر نے معاریو اخبار میں اپنے مقالے میں لکھا کہ ڈیل آف سینچری منصوبہ اعلان سے پہلے ہی ناکام ہو گیا ہے ۔ مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے یہ کہا کہ ڈیل آف سینچری کا اعلان اس وقت کیا جائے گا جب اسے نافذ کرنے کا امکان اپنے آخری مرحلے پر پہنچ جائے گا ۔ فریڈمین نے یہ کہہ کر در حقیقت یہ اشارہ کیا ہے کہ ڈیل آف سینچری کا اعلان طویل مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے ۔ امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے بھی ڈیل آف سینچری کے اعلان کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا ہے ۔
ڈیل آف سینچری کو ملتوی کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس منصوبے میں واضح طور پر فلسطینیوں کے حقوق پر حملہ کیا گیا ہے اور اسرائیل کے ناجائز اور غیر قانونی مفاد کی غیر منطقی طریقے سے حمایت کی گئی ہے ۔ اس منصوبے کو تیار کرنے والوں سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ وہ یہ سمجھ نہیں سکے کہ حالات بدل چکے ہیں ۔ اب وہ حالات نہیں ہیں جن میں اسرائیل کی تشکیل کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ اسرائیل کئی طرف سے بری طرح محاصرے میں آ گیا ہے ۔ ایک طرف حزب اللہ ہے جس نے 2006 کی جنگ میں اسرائیل کو بری طرح شکست سے دوچار کیا اور اس کے بعد سے حزب اللہ کی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔ ایک طرف غزہ میں فلسطینی تنظیم ہے جس نے حالیہ دنوں میں اسرائیل سے اپنے تصادم کے دوران میزائل توانائی کا اس طرح سے مظاہرہ کیا کہ پورے اسرائیل پر خوف طاری ہو گیا ہے ۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ڈیل آف سینچری کے نفاذ کے لئے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو اصل مرکز کے طور پر مد نظر رکھا گیا تھا تاہم سینئر صحافی جمال خاشقجی کے دردناک قتل اور جنگ یمن کی وجہ سے بن سلمان پوری دنیا میں بری طرح بدنام ہوگئے ہیں ۔
ارجنٹائن میں جی-20 سربراہی اجلاس کے موقع پر یہ مسئلہ چھایہ رہا۔ فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے بتایا کہ انہوں نے واضح الفاظ میں بن سلمان سے کہا ہے کہ پورا یورپ چاہتا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سارے ثبوت پیش کئے جائیں اور اس کے لئے بین الاقوامی تحقیقات کی جائے جس پر اعتماد کیا جا سکے ۔
دوسری جانب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے کے پختہ اشارے موجود ہیں ۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی کہا کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ساری اطلاعات برملا ہونی چاہئے۔
ان حالات کے مد نظر بن سلمان کے لئے اپنا عہدہ بچا پانا سخت ہو گیا ہے اس لئے امریکا کے ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل کی نتن یاہو حکومت دونوں کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ ڈیل آف سینچری کا اگر اعلان کر بھی دیا جائے تو اس کا نفاذ ناممکن ہوگا۔