رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ ، فلسطین اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں کم عمر بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم اداروں کی نظریں ان دنوں اسرائیلی کابینہ کے اس مجوزہ قانون پرہیں جو جلد ہی اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ اس قانون میں یہ سفارش کی جائے گی کہ چودہ سال سے کم عمر کے فلسطینی بچے جو اسرائیلی مفادات اور یہودی آباد کاروں یا فوج پرحملوں میں ملوث پائے جائیں انہیں عملا طویل قید کی سزا دی جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیم "ضمیر” کے مندوب محمد محمود کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں 14 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو عملا قید کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ اسرائیل واحد ملک ہے جو 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو پہلے بھی سنگین نوعیت کی سزائیں دیتا آیا ہے اور اب صہیونی ریاست نے 14 سال اور اس سے بھی کم عمر بچوں کو طویل المیعاد قید کی سزائیں دینے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں اس وقت 14 سال یا اس سے کم عمر بچوں کو گرفتار کرنے کا بھی کوئی قانون نہیں مگر اسرائیلی فوج کئی ایسے بچوں کو بھی حراست میں لینے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتی جن کی عمریں محض آٹھ اور دس سال ہوتی ہیں۔
انسانی حقوق کے مندوب کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے موجودہ قانون کے تحت صرف 20 اور 25 سال کے نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ ایسے افراد کو بھی زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے لیے زیرحراست رکھا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت قید فلسطینی بچوں کی تعداد 300 سے زائد ہے۔ ان میں 104 بچوں کی عمریں 13 اور 17 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں 21 اسکولوں کے طلبا ہیں جنہیں اسکول جاتے یا چھٹی کے بعد گھر لوٹتے ہوئے حراست میں لیا گیا تھا۔ اسکول جاتے ہوئے گرفتار کیے جانے والے کچھ بچوں کی عمریں 8 سے 10 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ 22 بچوں کی عمریں 8 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں اسرائیل کی خاتون وزیرقانون آئیلٹ شاکیڈ نے ایک نیا مسودہ قانون تیار کرنا شروع کیا ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ 14 سال یا اس سے کم عمر کے فلسطینی بچوں کو بھی جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں عملی قید کی سزا دینے کی منظوری دے۔