اسرائیل میں سرگرم انسانی حقوق کی ایک تنظیم” بتسلیم” نے بھی قابض صہیونی فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام پرسخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو چاقو سے حملے کے شبے میں گولیاں مارنا بھی جنگی جرائم میں شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق گروپ کے رابطہ کار کریم جبران کہا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایسے دسیوں فلسطینی بچے اور نوجوان شہید کیے جا چکے ہیں جن کے بارے میں یہ تصدیق نہیں کی جاسکی کہ وہ اسرائیلی فوج کے لیے کسی قسم کا خطرہ تھے۔انہی میں 16 سالہ اشرقت قطنانی بھی شامل ہیں جنہیں دو روز قبل غرب اردن کے نابلس شہر میں حوراہ کے مقام پر محض اس شبے میں گولی ماردی گئی کہ وہ یہودی فوجیوں پر چاقو سے حملے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اسرائیلی فوج شہید فلسطینی لڑکی کے قبضے سے ایسی کوئی خطرناک چیز یا دستی ہتھیار برآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے اس کا قتل بھی بے گناہ اور ماورائے عدالت قتل میں شمار کیا جائے گا۔کریم جبران نے بتایا کہ سوموار کے روز اسرائیلی فوجیوں نے بیت المدس کی شاہراہ یافا پر دو فلسطینی بچیوں کو گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں ایک شہید اور دوسری شدید زخمی ہوگئی۔ اسرائیلی فوج کا اپنا بیان ہے کہ اسی شاہراہ پر یہودی آباد کاروں پر چاقو سے حملے کی کوشش کی گئی تھی تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا حملہ آور کون ہے۔ فلسطینی لڑکیوں کے بے قصور ہونے کے علی الرغم انہیں گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔
انسانی حقوق کارکن کا کہنا ہے کہ بے گناہ فلسطینیوں کو محض شبے میں گولیاں مارنا سنگین نوعیت کا جنگی جرم ہے۔ کسی ملک کی فوج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسا کرنے کا قطعا کوئی حق نہیں ہے۔