رپورٹ کے مطابق برطانوی اخبار میں "لین فیلڈ” نامی ایک تجزیہ نگار کی مفصل رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتین یاھو نے 80 ہزار سے ایک لاکھ تک فلسطینیوں کی بیت المقدس کی شہریت ختم کرنے کی دھمکی دے کر لاکھوں فلسطینیوں کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ اگر اسرائیلی حکومت کی طرف مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کی شہریت منسوخ کی جاتی ہے تو ہزاروں افراد صحت، تعلیم اور سماجی سہولیات سے محروم ہوسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان فلسطینیوں کو بیت المقدس میں روزگار کا حق بھی نہیں رہے گا۔
انڈی پینڈنٹ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ "بی بی سی "عربی پر بھی شائع کی گئی ہے جس میں بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کی شہریت منسوخ کرنے کی صہیونی دھمکی کے مضمرات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں سنہ 2004 ء میں قائم کی گئی اسرائیل کی طرف سے دیوار فاصل کی دوسری جانب رہنے والے فلسطینیوں کی شہریت منسوخ کرنا اسرائیل کے لیے ایک نئے بحران کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔
اخبار نے سماجی کارکن "یوڈیٹ اپنہائمر” کے حوالے سے کہا ہے کہ بیت المقدس کے تمام باشندوں کو یکساں حقوق فراہم کرنا اسرائیلی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسرائیلی حکومت اس میں کوتاہی برتی ہے تو اسے جارحیت سمجھا جائے گا کیونکہ اس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بنیادی شہری حقوق سے محروم ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں القدس صرف یہودی آباد کاروں کا ہو کر رہ جائے گا جس میں لاکھوں فلسطینی در بہ در ہوسکتے ہیں۔ یوں اسرائیلی حکومت القدس کے باشندوں کی شہریت منسوخ کرکے انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محرم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بند گلی کی طرف لے جائے گی۔