(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو گزشتہ سال 5 اگست کو اس وقت گرفتار کیا جب مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا تھا۔
گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی نےسماجی رابطے کی ویب سائیٹ کے ذریعے اپنی والدہ کی رہائی کی تصدیق کر تے ہوئے کہا ہے کہ ان کی والدہ کی غیر قانونی حراست بلآخر ختم ہوگئی ہے
ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت نے متنازع قانون کے تحت محبوبہ مفتی کو بغیر کسی الزامات کے تحویل میں لیا تھا جس کے بعد ان کی صاحبزادی نے اپنی والدہ کی گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم انہوں نے اس مشکل وقت میں تعاون کرنے والے ہر شخص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی والدہ نے اپنی رہائی کے بعد جیل میں موجود دیگر کشمیریوں کی بھی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے ۔
رہائی کے بعد ٹوئٹر پر جاری اپنے پہلےآڈیو بیان میں محبوبہ مفتی کابھی یہ کہنا ہےکہ میں آج ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد رہا ہوئی ہوں اس دوران 5 اگست 2019 کے کالےدن کا کالا فیصلہ ہر پل میرے دل اور روح پر وار کرتا رہا، اور مجھے احساس ہےکہ یہی کیفیت جموں کشمیر کےتمام لوگوں کی رہی ہوگی، ہم میں سےکوئی بھی شخص اس دن کی ڈاکہ زنی اور بے عزتی کو قطعاً نہیں بھول سکتا اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں نے جانیں نچھاور کیں اسے حل کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی یہ راستہ اگرچہ آسان نہیں لیکن ہم سب کا عزم اور حوصلہ یہ دشوار راستہ طے کرنے میں ہمارا معاون ہوگا۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔