مصر میں تین جولائی کو ایک منتخب حکومت کے خاتمے اور ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد قاہرہ اور تل ابیب کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھرسے مضبوط ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
اسرائیل کے ایک کثیرالاشاعت عبرانی اخبار”ہارٹز” نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں منتخب صدر مرسی کی حکومت پر شب خون مارنے کے فوائد پرایک مفصل ضمیمہ شامل کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ تین جولائی 2013ء کا فوجی اقدام تل ابیب کے لیے ایک بڑی خوشخبری لےکر آیا ہے۔ یہ خوشخبری دونوں ملکوں کے درمیان سابق مرد آہن حسنی مبارک کے دور کے تعلقات کی بحالی ہے۔ اس فوجی اقدام کے نتیجے میں نہ صرف اسرائیل کی مخالف مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کی حکومت کو چلتا کیا گیا اور دونوں ملکوں کے درمیان سیکیورٹی تعاون بڑھایا گیا ہے بلکہ اس سے دو قدم آگے بڑھ کردونوں پڑوسی ملک مشترکہ اسٹریٹیجک شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہ پرچل پڑے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنوری 2011ء میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں جب حسنی مبارک کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تواسرائیل کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس مایوسی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو گیا تھا جب مصری عوام نے اسلام پسند انقلابی تنظیم اخوان المسلمون کو بھاری اکثریت سے ووٹ دے کر صدر منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ تمام ڈرامائی تبدیلیاں تل ابیب کے لیے تشویش ہی نہیں بلکہ ایک بڑے خطرے کا باعث تھیں مگر مصرکی مسلح افواج کو داد دینی چاہیے کہ اس نے تین جولائی کے بعد حالات کا پانسہ ایک مرتبہ پھر پلٹ کردونوں ملکوں کو”بقائے باہمی” کے تحت آگے بڑھنے کا ایک اور سنہری موقع فراہم کیا ہے۔
اسرائیل کے عرب امور کے تجزیہ نگار”عاموس ہرئیل” نے مصرمیں برپا ہونے والی تبدیلی کے بارے میں لکھا ہے کہ "پیش آئند ایام میں مشرق وسطیٰ میں کس نوعیت کی تبدیلی آنے والی ہے؟ اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی تو نہیں کی جا سکتی ہے تاہم ہمیں ایک بات پراطمینا ضرور ہوا ہے۔ وہ یہ کہ ہمیں اب مصر کی جانب سے جنوب مغربی سرحد کی جانب سےکوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ہم سیکیورٹی کے حوالے سے جن خدشات کا سامنا کر رہے تھے کم سے کم اب وہ خدشات مصر کے حوالے سے نہیں کیے جائیں گے۔ ہم نے قاہرہ میں حکومت کی تبدیلی کے ابتدائی ثمرات سمیٹنا شروع کردیے ہیں۔ مصری حکومت اور فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ کوششیں کرر ہی ہے۔ اب ہمارے تمام دشمنوں کو اس تبدیلی سے پریشانی ضرور ہوگی۔ ان کا اشارہ شمالی جزیرہ سیناء میں مصری فوج کے عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن اورغزہ کی پٹی سے متصل سرحد کو بند کرنے کی جانب تھا، کیونکہ صحرائے سینا میں آپریشن اور سرحد کی بندش سے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی مسلط کردہ معاشی ناکہ بندی میں مزید اضافہ ہوا ہے، جو یقینا صہیونیوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان فروغ پذیر تعلقات کے بارے میں عبرانی اخبار نے ایک خشک اور سرسبزدرخت کی مثال دی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ محمد مرسی کے دور صدارت میں قاہرہ اور تل ابیب کے درمیان دوستی کا پودا خشک ہو گیا تھا جبکہ تین جولائی کے اقدام کے بعد اب وہ ایک مرتبہ پھر برگ وبار لانے لگا ہے۔
اخبار نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مصرمیں فوجی بغاوت کے بعد اسرائیل کے سیکیورٹی حلقوں بالخصوص مسلح افواج میں بھی سکون اور چین کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔ مصرکی فوج نواز حکومت کے اقدامات سے یہ اطمینان ایک غیرمعمولی خوشی کی شکل میں مزید پھل پھول رہا ہے۔ مصر روز مرہ کی بنیاد پرغزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ اس دباؤ نے اسرائیلی فوج کی بہت سی مشکلات آسان کردی ہیں۔ حماس کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ اس کے زیرانتظام علاقے سے اب اسرائیل پر راگٹ گرنے کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین