اسرائیلی حکام نے بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے شہروں سے مسجد اقصیٰ میں آنے والے شہریوں کے لیے مسجد کے دروازے بند کردیے ہیں۔ دوسری جانب جمعرات کو علی الصباح سے یہودی آباد کاروں کی مسجد اقصیٰ میں آمد ورفت کا سلسلہ جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق جمعرات کو علی الصباح قابض صہیونی فوجیوں اور پولیس کے مسلح اہلکاروں نے مسجد اقصیٰ کے اطراف کو گھیرے میں لے لیا اور تمام داخلی راستوں کی ناکہ بندی کرنے کے بعد مسجد میں آنے والے نمازیوں کو روک دیا گیا۔
اس دوران یہودی آباد کاروں کے لیے مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے کو کھولا گیا اور یہودی بغیر کسی رکاوٹ کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے اور مذہبی رسومات کی آڑ میں قبلہ اول کی بے حرمتی کرتے رہے۔
ذرائع کے مطابق کئی گھنٹے تک فلسطینیوں کے لے مسجد اقصیٰ کے دروازے بند رکھنے کے بعد صرف 50 سال سے زائد عمر کے افراد کو مسجد میں جانے کی اجازت دی گئی جب کہ تمام خواتین اور پچاس سال سے کم عمر کے مردوں کو قبلہ اول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
مسجد اقصیٰ کے شعبہ مخطوطات اور آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر رضوان عمرو نے میڈیا کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے نماز فجر کے وقت سے مسجد اقصیٰ کا محاصرہ کرلیا تھا اور تمام فلسطینیوں کو قبلہ اول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ کئی گھنٹے کے بعد صرف پچاس سال سے زائد عمرکے افراد کو مسجد میں جانے کی اجازت دی گئی۔
رضوان عمرو نے بتایا کہ قابض فوجیوں نے یہودی آباد کاروں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے لیے فول پروف سیکیورٹی مہیا کر رکھی تھی اور یہودی مراکشی دروازے کے راستے کھلے عام مسجد اقصیٰ میں آ اور جا رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ روزانہ اسرائیلی فوج اور پولیس مسجد اقصیٰ کا صبح کے وقت محاصرہ کرتی ہے اور دن گیارہ بجے تک کسی فلسطینی کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے یا مسجد سے باہر آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عملا یہ وقت یہودی آباد کاروں کے قبلہ اول میں داخل ہونے کے مختص کیا گیا ہے۔ یوں زمانی اعتبار سے قابض اسرائیلی نے مسجد اقصیٰ کو فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین تقسیم کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہودی آباد کار رات گئے تک مسجد میں دھاوے بولتے رہتے ہیں اور انہیں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔