قاہرہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) عرب لیگ کے تیونس میں 30 مارچ کو ہونے والے سربراہ اجلاس میں شام کی رکنیت کی بحالی پر غور نہیں کیا جائے گا۔ عرب کے ترجمان محمود عفیفی نے اتوار کو ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ شام کی واپسی کا معاملہ آئندہ سربراہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں اور اور یہ باضابطہ طور پر تجویز بھی نہیں کیا گیا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ قضیہ فلسطین عرب لیگ کے ایجنڈے کااہم ترین موضوع ہے۔ تیونس میں ہونے والے اجلاس میں بھی فلسطینی اتھارٹی کو درپیش مالی بحران کےحل پر غور کیا جائے گا۔
تاہم، ان کا کہنا تھا کہ شامی بحران اجلاس کے ایجنڈے کے سرفہرست موضوعات میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل، فلسطینی تنازع اور یمن اور لیبیا کی صورت حال پر غور کیا جائے گا۔ عرب لیگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گولان کی چوٹیوں پر اسرائیل کے قانونی حق کو تسلیم کرنے سے متعلق اپیل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ شامی حکام نے اسی ماہ پڑوسی ملک اردن میں عرب ریاستوں کے ایک اجلاس میں شرکت کی تھی۔ عرب لیگ میں شا م کی رکنیت کی معطلی کے بعد ان کی اس طرح کے کسی اجلاس میں یہ پہلی شرکت تھی۔
عرب لیگ نے آٹھ سال قبل نومبر 2011ء میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے مظاہرین کے خلاف خونیں کریک ڈاؤن کے بعد شام کی رکنیت معطل کردی تھی۔اب بعض عرب ریاستیں شام کے ساتھ مصالحت کے حق میں ہیں اور وہ اس کی عرب لیگ میں رکنیت کی بحالی چاہتی ہیں۔ ان میں ایک ایسا عرب ملک بھی شامل ہے جو ماضی میں شامی باغیوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔
عرب لیگ کے آیندہ سربراہ اجلاس کے میزبان ملک تیونس کے وزیر خارجہ خميّس الجھيناوی کا کہنا ہے کہ شام ایک عرب ریاست ہے اور اس کی ’’فطری جگہ‘‘ عرب لیگ کے اندر ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ’’عرب لیگ میں شام کی واپسی کے سوال کا انحصار تیونس پر نہیں بلکہ خود عرب لیگ پر ہے۔‘‘
متحدہ عرب امارات نے دسمبر میں دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھا اور سوڈانی صدر عمر حسن البشیر نے اسی ماہ شام کا دورہ کیا تھا۔ وہ 2011ء کے اوائل میں صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک شروع ہونے کے بعد شام کا دورہ کرنے والے پہلے عرب سربراہ ریاست ہیں لیکن قطر نے بشارالاسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی تجویز مسترد کردی تھی۔