رپورٹ کے مطابق اسرائیلی خفیہ اداروں کی جانب سے فلسطین میں نئی تحریک انتفاضہ کے امکانات کا خدشہ ایک ایسے وقت میں ظاہر کیا ہے جب فلسطین میں اسرائیل کے خلاف تحریک جاری ہے۔ اگرچہ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کی احتجاج اور یہودی آباد کاروں پر حملوں کی لہر میں قدرے کمی آئی ہے اور حالات کچھ پرسکون ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کے ایک دفاعی تجزیہ نگار اور صہیونی انٹیلی جنس اداروں کے مقرب صحافی عاموس ہرئیل نے اخبار میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں انہوں نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ فلسطین کے اندرونی سیاسی حالات بھی ایک نئی تحریک انتفاضہ کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس 80 سال کی عمرکو پہنچ چکے ہیں۔ فلسطینی ان کا متبادل دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے فلسطین میں نچلی سطح پر محمود عباس کے بعد کے حالات کے بارے میں غور وخوض کیا جا رہا ہے۔
مسٹر ہرئیل لکھتے ہیں کہ غرب اردن میں فلسطینی عوام ما بعد محمود عباس کے بارے میں لائحہ عمل پرغور کررہے ہیں کیونکہ محمود عباس ان کی امنگوں پرپورا نہیں اتر سکے ہیں۔ اس لیے فلسطین میں ایک نئی تحریک سر اٹھا سکتی ہے جو بہ یک وقت فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل دونوں کے خلاف ہوگی۔ اس حوالے سے آئندہ چند ہفتے نہایت اہم ہیں۔ نیز محمود عباس سے اسرائیل بھی نالاں ہے کیونکہ صدر عباس ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری تحریک کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطین میں پچھلے ایک ماہ سے جاری تحریک کے دوران کم سے کم 74 فلسطینی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ اب تک 11 صہیونی بھی اس تحریک میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی زخمی ہوئے ہیں اور دو ہزار سے زائد کو حراست میں لیا گیا ہے۔