اسرائیلی فوج کے ایک حراستی مرکز میں پابند سلاسل 13 سالہ ایک فلسطینی بچے پر اقرار جرم کرانے کے لیے ہولناک تشدد کا رونگٹے کھڑے کردینے والا تازہ واقعہ سامنے آیا ہے۔ فلسطین کے ایک نیوز چینل نے حراستی مرکز میں بچے سے تفتیش کی ایک خفیہ فوٹیج نشر کی ہے جوخفیہ ذریعے سے ٹی وی کو ملی ہے۔ اس فوٹیج میں تین مسلح تفتیش کاروں جکو 13 سالہ احمد مناصرہ سے پوچھ گچھ کے دوران وحشیانہ جسمانی اور نفسیاتی تشدد کرتے دکھایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دل دہلا دینے والے تفتیشی مناظر میں احمد مناصرہ تین قوی الجثہ صہیونی فوجیوں کے نرغے میں ہے جو تینوں اسے مل کر وحشیانہ تشدد طریقے سے مار پیٹ کے ساتھ اسے یہودی آباد کاروں پر چاقو سے حملے کا اعتراف کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔
فوٹیج میں بچے کی چیخ وپکار صاف سنائی دے رہی ہے۔ صہیونی فوج کے تشدد کے باوجود وہ بار بار یہ کہتا ہے کہ جس واقعے کا اس سے اقرار جرم کرایا جا رہا ہے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ جس شاہراہ پر یہودی آباد کار کو حملے کا نشانہ بنایا گیا وہ وہاں اس دن گیا ہی نہیں تھا۔ نیز اس نے اب تک کسی یہودی آباد کار پرچاقو سے حملہ نہیں کیا ہے مگر صہیونی غنڈہ گرد اس سے بار بار یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنا جرم مان لے کہ اس نے یہودی آباد کاروں پرحملہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ چند ہفتے پیشتر اسرائیلی فوجیوں نے بیت المقدس میں ”بسغات زئیف” یہودی کالونی کے قریب کھڑے دو فلسطینی لڑکوں کو گولیاں مار دی تھیں جس کے نتیجے میں حسن مناصرہ شہید جب کہ اس کا ایک چچا زاد احمد مناصرہ زخمی ہوگیا تھا۔ چند دن تک اسپتال میں رکھنے کے بعد حراستی مرکز منتقل کردیا تھا جہاں اسے وحشیانہ جسمانی اور ذہنی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوجیوں نے دونوں فلسطینی لڑکوں پر یہودی آباد کاروں پر چاقو سے حملے کا الزام عائد کیا تھا۔