اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل میں وسط مدتی پارلیمانی انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی فلسطینی اتھارٹی اور تل ابیب کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کاایک نیا فارمولہ پیش کریں گے۔
وائیٹ ہائوس کےایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صدر اوباما اپنی مدت صدارت میں ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کا تنازع حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کو مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال پر گہری تشویش ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امن و امان کے قیام کا ایک نیا موقع تلاش کیا جائے۔
امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ صدر باراک اوباما کی جانب سے تیار کردہ نئے فارمولے میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات کی بحالی، پچھلے سال مفاہمتی عمل آگے بڑھانے کے لیے وزیرخارجہ جان کیری کے فارمولے کو آگے بڑھانے اور ایک نیا فارمولہ پیش کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ جس میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی شامل کیاجا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک خفیہ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال امریکا اور اسرائیل کے درمیان سنہ 1967 ء کی حدود میں فلسطینی ریاست کے قیام پر مشروط طور پر اتفاق ہو گیا تھا۔ اس دستاویز میں فریقین[فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل] آبادی اور علاقوں کا تبادلہ کرتےہوئے دو ریاستی حل کی طرف بڑھ رہے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی امن منصوبے میں رام اللہ کی یہودی کالونیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا تھا اور اس کے بدلے میں مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948 ء کے بعض علاقوں کو فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دینے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔
اسی طرح مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی تجویز اس شرط کے ساتھ مشروط کی گئی تھی کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو یہودیوں کی مذہبی ریاست قبول کرنے کا اعلان کرے گی۔ تاہم اس منصوبے میں فلسطین سے نکالے گئے لاکھوں پناہ گزینوں کی واپسی اور ان کی دوبارہ آباد کاری کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین