مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق آسٹریا کی ایک غیرسرکاری تنظیم’’ویمن ان بلیک‘‘ کی جانب سے یہ دستاویزی فلم بدھ کے روز جاری کی گئی۔’’روڈ کے اس پار‘‘ کے نام سے جاری فلم کی پروڈیوسر لیا ٹراچانسکی ایک یہودی خاتون ہیں۔ انہوں نے دستاویزی فلم میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف مظالم کو نہایت بے باکی سے پیش کرتے ہوئے صہیونی ریاست کی سیاہ تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔
دستاویزی فلم میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1948 ء میں قیام اسرائیل کے بعد سے اب تک صہیونی ریاست کی تاریخ کا ہر دن ایک ‘‘سیاہ باب‘‘ ہے۔ اسرائیلی اور اور غیرسرکاری مسلح یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہنستی بستی بستیوں ،قصبوں، دیہاتوں اور شہروں کو نیست ونابود کر دیا گیا اور ہزاروں فلسطینیوں کو جان سے مارنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں کو ان کے وطن اور گھر بار، جائیداد اور املاک سے محروم کر دیا گیا۔
دستاویزی فلم میں قیام اسرائیل کے بعد سے اب تک کے اہم واقعات کو سلسلہ وار دکھایا گیا ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، سنہ 1967 ء کی جنگ اور اس میں مزید فلسطینی علاقوں پرقبضے کے بارے میں تفصیلات کے ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلیوں کے ہاتھوں پچھلے 67 برسوں میں ہزاروں انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کیا گیا۔ ان میں فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام اور بستیوں میں لوٹ مار بھی شامل ہے۔ فلم میں بتایا گیا ہے کہ صہیونیوں نے فلسطین کی 500 بڑی بستیوں اور شہروں کو نیست ونابود کردیا۔ فلسطین کے بدو قبائل کا آج بھی جینا حرام ہے۔ آئے روز ان کی املاک پر قبضے کیے جاتے اور ان پر ستم ڈھائے جاتے ہیں۔
فلم کی خاتون یہودی پروڈیوس نے ترک خبر رساں ایجنسی’’اناطولیہ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دستاویزی فلم کا مقصد حقائق کو سامنے لانا اور یورپی ممالک کو یہ بتایا کہ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم کی حقیقت کیا ہے۔ صہیونی ریاست کس طرح فلسطینیوں پر اپنی جبر اور ستم قائم رکھے ہوئے ہے۔
اس نے کہا کہ ہم اس طرح کی مزید فلمیں بھی تیار کریں گے جن میں صہیونی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ مسزٹراچانسکی کاکہنا تھا کہ دنیا میں تو اسرائیل ایک جمہوری ملک کے طورپر مشہور ہے مگرحقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسرائیل معاصر دنیا کا سب سے بڑا نسل پرست ملک ہے جس میں فلسطینیوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے۔ انسانی تفریق صرف فلسطینیوں اور یہودیوں کےدرمیان ہی نہیں بلکہ اسرائیل میں یہ تفریق اور امتیازی طبقاتی تقسیم خود یہودیوں کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے۔ مشرقی اور مغربی یہودیوں کو الگ الگ سمجھا جاتا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین