اسرائیلی حکومت نے اپنے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی آڑ میں یہودی انتہا پسندوں کو اسلحہ رکھنے اور اسے کھلے عام فلسطینیوں پر استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے فیصلے کےبعد فلسطینی شہری مزید غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا ہے کہ داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردان نے یہودی آباد کاروں کو مسلح کرنے کے حوالے سے پہلے سے موجود ایک قانون میں ترامیم کی ہیں جس کے بعد یہودی آباد کار غیر مشروط طورپر ہتھیار رکھ سکیں گے۔ رپورٹ کے مطابق ترمیمی قانون کی رو سے کوئی بھی یہودی شخص اپنے ساتھ مسلح محافظ رکھ سکے گا اور وہ کسی بھی وقت کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے اسلحہ کا کھل کر استعمال کریں گے۔خیال رہے کہ سنہ 2013 ء میں اسرائیلی حکومت نے ایک قانون کی منظوری دی تھی جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کو ڈیوٹی کے اوقات میں اسلحہ اُٹھانے کی اجازت دی گئی تھی جب کہ عام یہودیوں کو کھلے عام اسلحہ لے کرگھومنے پھرنے پرپابندی عائد کی گئی تھی۔ حال ہی میں حکومت نے فلسطینیوں کے بڑھتے حملوں کی آڑ میں یہودیوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دے کر ریاستی دہشت گردی کا ایک نیا راستہ کھول دیا ہے۔
سنہ 2014 ء میں اسرائیلی حکومت نے ہنگامی حالت میں یہودی آباد کاروں کو اسلحہ لے کرگھروں سے باہرنکلنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جب غزہ کی پٹی پراسرائیلی فوج کی جارحیت جاری تھی اور اس کے رد عمل میں فلسطینیوں میں سخت غم وغصہ پایا جا رہا تھا۔ صہیونی حکومت نے سیکیورٹی اہلکاروں کو ڈیوٹی کے اوقات کے علاوہ گھروں میں بھی مسلح رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ فلسطین میں یہودی شدت پسندوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب پچھلے دو ماہ سے اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ کی کیفیت ہے۔ فلسطینی اسرائیلی مظالم کے خلاف آئے روز سڑکوں پر نکل کراحتجاج کرتے ہیں جب کہ قابض فوجی انہیں گولیاں مار کر شہید کررہے ہیں۔ فلسطینیوں کی جوابی مزاحمتی کارروائیوں کے نتیجے میں 25 صہیونی ہلاک اور 300 کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔