جنیوا (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے ایک بار پھر اسرائیل پر فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں جنگ جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جاری ’’عظیم الشان حق واپسی مارچ‘‘ کے شرکاء کو طاقت کے ذریعے کچل رہا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ہائی کمیشن کے 40 ویں اجلاس کے موقع پر ہونے والے اجلاس میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں اسرائیل کو غزہ میں فلسطینی مظاہرین کے خلاف ’’جنگی جرائم‘‘ کا مرتکب قرار دیا۔
اس موقع پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ہائی کمشنر سانتیاگو کانٹن نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے وحشیانہ ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے اسرائیل نے رپورٹ کی تیاری میں کسی قسم کی مدد فراہم نہیں کی۔ اسرائیل نے یو این معائنہ کاروں کو فلسطینی اراضی میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
کانٹن کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے فلسطینی سرکاری عہدیداروں، عینی شاہدین اور اسرائیلی فوج کے حملوں سے متاثرہ 325 فلسطینیوں کے بیانات قلم بند کیے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کے حق واپسی کے مظاہرین کو طاقت سے کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ غزہ میں فلسطینی مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں احتجاج کرنےوالے 189 فلسطینیوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کیا۔ ان میں 6 ہزار 106 کو گولیاں ماری گئیں جب کہ تین ہزار 98 فلسطینی آنسوگیس کی شیلنگ اور دیگر حملوں سے زخمی ہوئے۔
گذشتہ برس 30 مارچ سے اب تک غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں 271 فلسطینی شہید اور 31 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے 500 کی حالت خطرے میں بیان کی جاتی ہے۔