رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے مندوب برائے انسانی حقوق ’’ماکاریم ویبیسونو‘‘ نے نیویارک میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران خطاب کرتےہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج کے خلاف فلسطینیوں پر ریاستی تشدد برتنے اور طاقت کےاندھا دھند استعمال کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، جس کے بعد میں مطالبہ کرتاہوں کہ بے جا تشدد کے مرتکب صہیونی عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ صہیونی حکومت اور اس کے تمام سیکیورٹی ادارے ایک منظم پالیسی کے تحت فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
عالمی ادارے کے عہدیدار نے اسرائیل کی فلسطینیوں کو انتظامی حراست میں رکھنے اور بغیر کسی مقدمہ اور الزام کے انہیں بار بار پابند سلاسل کرنے کی پالیسی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل انتظامی حراست میں رکھے گئے تمام فلسطینیوں کو یا تو عدالتوں میں پیش کرتے ہوئےان کےخلاف الزامات ثابت کرے یا انہیں فوری طورپر رہا کرے کیونکہ کسی الزام کے بغیرشہریوں کو جیلوں میں ڈالنے اورانہیں طویل مدت کی سزائیں دینے کا کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں ہےْ۔
یو این مندوب کا کہنا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ یہ سلسلہ اب مزید جاری نہیں رہنا چاہیے۔ اسرائیلی فوج کو طاقت کا بے جا استعمال اور فلسطینیوں کے ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ بند کرنا ہوگا ورنہ اس کے خطے کے امن استحکام پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
مسٹر ویبیسونو کا کہنا تھا کہ فلسطینی شہریوں کی جانب سے اسرائیلیوں پر چاقو کے حملےبھی ناقابل قبول ہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے مسلط کردہ محاصرے کو بھی شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کےمترادف قرار دیا۔
دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے حسب معمول عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان ایمانول نحشون نے یو این مندوب کے بیان اور ان کی پیش کردہ رپورٹ کو جانب داری پرمبنی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مندوب نے یک طرفہ رپورٹ میں صرف اسرائیل کو تشدد کا مرتکب قرار دیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مندوب نے جنوری میں اپنے عہدے سے استعفیٰ پیش کردیا تھا تاہم اکتیس مارچ تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔ ویبیسونو نے الزام عائد کیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ، غرب اردن اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں ان کی رہائی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے بدعہدی کا مظاہرہ کیا ہے۔
