رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے”ڈیموکریٹک ہیومن رائیٹس” کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ مصر اور اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ختم نہ کی تو وہاں پرخوفناک انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے جس کی ذمہ داری ان دونوں ملکوں پرعائد ہوگی۔
بیان میں ایک ہفتہ قبل مصری بحریہ کی فائرنگ سے غزہ کی پٹی میں ایک 17 سالہ لڑکے فراس محمد مقداد کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی مظالم کے بعد اب مصری فوج بھی غزہ کے بچوں کا شکار کرنے لگی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے ماہی گیروں کو سمندر میں فائرنگ کا نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مصری فوج نے فلسطینی بچے کو گولیاں مار کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا غزہ کی پٹی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی کا رشتہ ہے۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے ساحل سمندر میں ماہی گیروں کو گولیاں مارنا سنہ 1989 ء میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے طے پانے والے ایک عالمی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس معاہدے میں کسی بھی علاقے کے بچوں کومرضی کی زندگی گذارنے کا حق دیا گیا ہے۔ کسی ملک کی فوج کو بچوں پر مظالم ڈھانے اورانہیں قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
بیان میں مزید کہا گیاہے کہ مصری فوج کا غزہ کی پٹی کے دو ملین لوگوں کے ساتھ رویہ اسرائیلی پالیسی سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ مصری فوج بھی فلسطینیوں کو اسی طرح مشکلات سے دوچار کررہی ہے جس طرح اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔