اس سلسلے میں امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن کہ جس کے ہزاروں ارکان ہیں، اسرائیل کے ساتھ اپنا تعاون ختم کرنے
کا جائزہ لے رہی ہے۔ صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل دس نے اعلان کیا ہے کہ امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن آئندہ جمعہ کے روز اسرائیل کے ساتھ اپنا تعاون ختم کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کرے گی۔ اس چینل کا مزید کہنا تھا کہ امریکن سوشلوجیکل ایسوسی ایشن کا اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کرنا اسرائیل کا سب سے بڑا یونیورسٹی بائیکاٹ ہو گا۔
اسرائیل کی نیوز سائٹ واللا نے بھی اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور قدس کی صیہونی کالونیوں میں بنی ہوئی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے لیے لاطینی امریکہ میں وسیع پیمانے پر مہم شروع کر رکھی ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب یورپی یونین نے بھی باضابطہ طور پر غرب اردن اور قدس کی صیہونی کالونیوں کی مصنوعات پر علامت لگانے کا کام شروع کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے یورپی ممالک اس مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں اضافے کی بھی کہ جس میں دسیوں فلسطینی شہید اور تقریبا دس ہزار زخمی ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کے قانونی امور کے ماہرین نے شدید مذمت کی ہے۔ اس سلسلے میں فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر مکارم وبسونو Makarim Wibisono اور اندھی پھانسیوں کے امور مین اقوام متحدہ کے مشیر کرسٹوف ہینز Christof Heyns نے اپنی رپورٹ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں شدت آنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
صیہونی حکومت پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی حکومت کے ناجائز قیام کو ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ حکومت مختلف قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود اپنی تشکیل کو قانونی جواز نہیں دے سکی ہے اور اس حکومت کو پہلے سے زیادہ عالمی نفرت کا سامنا ہے اور عالمی رائے عامہ مختلف طریقوں سے ناجائز صیہونی حکومت کے بارے میں اپنی نفرت کا اظہار کرتی ہے۔
فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم نے پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں کو مجروح کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ جوں جوں دنیا والوں کو مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہو رہی ہیں، اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید اور ان کی مخالفت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
صیہونی حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور اس کا بائیکاٹ کرنے پر بین الاقوامی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی کے بارے میں دنیا والوں کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے اور اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر صیہونی حکومت کے خلاف اقدامات شروع ہو رہے ہیں۔ جس پر غاصب صیہونی حکومت کے حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کچھ عرصہ قبل بائیکاٹ کی عالمی لہر میں اضافے پر خبردار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک اس حکومت کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کا مغرب کے صحافتی حلقے بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے اسرائیل کے بائیکاٹ کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہ جسے ڈان پیری نے تیار کیا، لکھا ہے کہ موجودہ فضا ہمیں اس بائیکاٹ کی یاد دلاتی ہے کہ جس نے پچیس سال قبل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خاتمے میں مدد دی تھی۔
بین الاقوامی حالات اس وقت سیاسی، اقتصادی، قانونی اور تعلیمی شعبوں سمیت تمام شعبوں میں صیہونی حکومت کے خلاف ردعمل کا دائرہ وسیع ہونے کی عکاسی کرتے ہیں اور اس غاصب حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی عالمی نفرت نے صیہونی حکومت کو بین الاقوامی میدان میں الگ تھلک اور تنہا کر کے رکھ دیا ہے۔