صیہونی حکومت نے ایک بار پھر ایتھیوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل لانےکی کوششیں شروع کردی ہیں اور یہ اقدامات ایسے حالات میں ہورہے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں افریقی یہودیوں کو شدید تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ افریقی یہودیوں نے حالیہ مہینوں میں احتجاجی مظاہرے کرکے صیہونی حکام کی امتیازی اور تعصب آمیز پالیسیوں پر شدید احتجاج کیا تھا۔ مقبوضہ فلسطین میں ایتھیوپین نژاد یہودیوں کی انجمن کی رپورٹ کے مطابق سیاہ فام یہودیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ شہر کے باہر مضافات میں سکونت اختیار کریں۔
ان کی متوسط فی کس آمدنی اسرائیل کے دیگر صیہونیوں سے چالیس فیصد کم ہے اور انہیں سرکاری اداروں میں نوکری حاصل کرنے میں بھی بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ صیونی حکومت نے انیس سو چوراسی اور انیس سو اکانوے میں سلیمان اور موسی نامی آپریشنوں کے تحت ایتھیوپیا کے ہزاروں یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لاکر بسایا تھا۔ صیہونی حکومت نے ان لوگوں سے جھوٹے وعدے کئے تھے۔ آج ایتھیوپیا کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں شدید ترین تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سیاہ فام یہودیوں کو مشقت آمیز اور پست کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان مسائل سے یہ لوگ بری طرح برہم ہیں۔ اس تمام مسائل کے باوجود ایتھیوپیا کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین لانے کی صیہونی حکومت کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ قدس کی غاصب حکومت کے پاس یہودیوں بالخصوص جوانوں کی معکوس مہاجرت کی بنا پر دنیا کے مختلف علاقوں سے یہودیوں کو جھوٹے وعدوں اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے مقبوضہ فلسطین میں لاکر بسانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سرزمین کے اقتصادی، سیکورٹی اور سماجی بحران اور صیہونی حکومت کے جھوٹے وعدے اس بات کا سبب بنے ہیں کہ صیہونی حکومت معکوس مہاجرت کا سامنا کرے۔
دراصل صیہونی حکومت جھوٹے وعدے کرکے دیگر ملکوں کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین آنے کی ترغیب دلاتی ہے، یہ لوگ جب مقبوضہ فلسطین آتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت نے ان سے جھوٹ کہا تھا اور بے بنیاد وعدے کئے تھے اس کےعلاوہ ان کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ واضح رہے صیہونی حکومت کی ان مکارانہ چالوں سے اب تک صیہونی حکومت کو یہودی آباد کی اکثریت بنانے میں کوئی مدد نہیں ملی ہے اور وہ آبادی کے بحران سے نہیں نکل سکی ہے۔