(روز نامہ قدس آن لائن خبر رساں ادارہ ) قابض صیہونی ریاست سے ملکی سطح پر تعلقات کی استواری کے حوالےسے آج کل عرب ممالک انتہائی کش مکش کا شکار ہیں۔
جہاں وہ ایک طرف عرب حکمرانوں کی پوری کوشش ہے کہ اسرائیلی ریاست کا مظلوم فلسطینی عوام پر ہر ظلم بھلا کر صیہونی ریاست سے تعلقات قائم کیے جائیں،وہیں ان ممالک کی غیورعوام کسی بھی صورت قابض صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے حق میں نہیں ہے،بلکہ انہوں نے اپنی ریاستوں کی کسی بھی ایسی کوشش کو مسترد کردیا ہے جس کا حتمی نتیجہ اسرائیل سے تعلقات کی صورت میں نکلے۔
یہ کہنا حقیقت کے بہت قریب ہو گا کہ عرب ممالک کی اسرائیل سے تعلقات بحالی کی کوششوں کی سب سے بڑی مخالف اپنی ہی عوام ہے،جو نہیں چاہتی کہ کسی بھی صورت ان لوگوں سے دوستی کی جائے جن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
عرب حکمرانوں کے برعکس پر ہر سطح پر عرب عوام کی جانب سے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے خلاف سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس نکالے جا رہے ہیں۔
اس بات کا ثبوت حال ہی میں بحرین کے شہر منامہ میں منعقد ہونے والی اقتصادی کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا جب اکثرعرب ممالک امریکی سرپرستی میں فلسطین کا سودا کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے اور فلسطین کا باقی ماندہ کنٹرول بھی اسرائیلی ریاست کے ہاتھ میں دینے کے لیے پر تول رہے تھے، تب ان ممالک کی عوام نے بھر پور طریقے سے احتجاج کر کے اور اس کانفرنس کی مخالفت کر کے ثابت کر دیا تھا کہ وہ اپنے حکمرانوں کی طرح کبھی بھی فلسطینیوں کے خون پر سودے بازی قبول نہیں کریں گے بلکہ اس سودے کی مخالفت کے لیے ان کو جس حد تک جانا پڑا وہ جائیں گے۔
تاہم فلسطین میں قابض اسرائیلی افواج کے خلاف برسرپیکار اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس نے اس مفروضے کو کسی حد تک غلط ثابت کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں فلسطینوں کے حقوق کا سوداکرنے کے لیے تیار کھڑی ہیں،حماس معدودے ان چند تنظیموں میں سرفہرست ہےجس نے اسرائیلی کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کی شدید مخالفت کی اور اسکی جانی اور مالی نقصان کی صورت میں بھر پور قیمت بھی چکائی۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے عرب ممالک کی حکومت اور عوام میں بھر پور تضاد ہے، تین عرب ممالک مصر، اردن اور موریتانیہ پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں جبکہ تحریک انتقاضہ میں اسرائیلی قتل عام کے بعدافریقی ملکوں مراکش اور تیونس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کر دیئے تھے جو کہ آج تک ختم ہیں۔