مصر میں متوقع صدارتی امیدوار اور عرب لیگ کے سابق سیکرٹری جنرل عمروموسیٰ نے کہا ہے کہ سابق مصری حکومت اور اسرائیل کے درمیان سنہ 1979ء میں طے پائے کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے پر نظرثانی ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مصر کی بالادستی اور خود مختاری کےاس معاہدے کے کئی نکات کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔
عمرو موسیٰ نے ان خیالات کا اظہار امریکی جریدے”فارن پالیسی میگزین” کو دیے گئےاپنے ایک تازہ انٹرویو میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ مصر اور اسرائیل کے درمیان برابری کی بنیاد پر طے پایا تھا لیکن اسرائیل نے معاہدے کے کئی نکات پرعمل درآمد نہیں کیا ہے جس کے بعد اس پر نظرثانی ناگزیر ہو چکی ہے۔
ایک سوال کےجواب میں عرب لیگ کے سابق سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کےخلاف نہیں ہیں، دنیا بھرمیں ملک ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں۔ معاہدے صرف اسی وقت کامیاب ثابت ہوتے ہیں جب فریقین ان پر برابری کی بنیاد پرعملدرآمد کریں، اسرائیل کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے پر ہمیں تل ابیب سے اس پرعملدرآمد نہ کرنے کی ہمیشہ شکایت رہی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل ان تمام نکات پرعمل درآمد کرے جن پرابھی تک عمل نہیں کیا گیا۔ اسرائیل اگر ہمیں امن معاہدے کی پابندی کی تلقین کرتا ہے تو وہ اپنے گریبان میں بھی جھانکے۔
ایک سوال کے جواب میں عمروموسیٰ کا کہنا تھا کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں جزیرہ نما سینا کےبارے میں سیکیورٹی کا جو پلان ترتیب دیا گیا تھا، مصر کے لیے موجودہ حالات میں اس پرعمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ مصر کو ایک مکمل خود مختار اور بالادست ریاست بنانے کے لیے سرحدوں کا مضبوط دفاع ناگزیرہے۔
مصری صدارتی امیدوار نے امریکا کے مشرق وسطیٰ کے تنازعات کےحل میں کردار کی بھی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر براک اوباما دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن ان کے پہلے دور میں کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے۔انہوں نےکہا کہ امریکا میں صدر براک اوباما دوسری مرتبہ صدر بن بھی گئے تب بھی وہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کے حل میں کوئی ٹھوس کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین