(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے ایک ذریعے نے جمعہ کے روز i24NEWS کو بتایا ہے کہ دوحہ میں تین روزہ مذاکرات کے باوجود کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے تاہم صیہونی وفد اب بھی قطر میں موجود ہے۔
ذرائع نے بتایا گیا کہ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے 13 مئی کو دوحہ میں وفد بھیجا تھا، اس سے قبل انہوں نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور امریکی سفیر مائیک ہکبی سے گفتگو کی تھی۔
غیر قانونی صیہونی ریاست کے ایک رپورٹر کے مطابق، صیہونی حکومت کا کہنا ہے کہ حماس کے لیے وٹکوف کے مجوزہ منصوبے کو قبول کرنے کی آخری مہلت وہ وقت تھا جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کا دورہ مکمل کریں، اور وہ اب علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔
صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو سے قریبی تعلق رکھنے والے صحافی ینون ماغال نے کہا کہ "غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ابتدائی بمباری ہے، کیونکہ دوحہ مذاکرات اپنے اختتام کے قریب ہیں۔ اگر معاہدہ نہ ہوا تو صیہونی افواج زمینی کارروائی کا آغاز کر دیں گی۔”
اسی تناظر میں "والاہ” ویب سائٹ کے رپورٹر نے انکشاف کیا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کی فوج آئندہ مرحلے کی تیاری کر رہی ہے، جس کا مقصد یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کا خاتمہ ہے، اور زور دیا کہ غزہ پر دباؤ بتدریج بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جو حملے کیے گئے، ان کا مقصد زمینی کارروائی کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
"چینل 12” کے رپورٹر الموغ بوکیر کے مطابق، صبح 2 بجے سے صیہونی فوج نے شمالی غزہ میں سینکڑوں اہداف پر وسیع حملے شروع کیے، تاکہ علاقہ کو زمینی افواج کے داخلے کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔
ادھر لبنان کے نشریاتی ادارے "المیادین” کے نمائندے نےاطلاع دی ہے کہ صیہونی فوج نے شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیا میں مقبرہ السلاطین کے قریب پیش قدمی کی ہے، جہاں درجنوں مقامی شہری شدید بمباری کے باعث محصور ہو چکے ہیں۔
اسی سلسلے میں "چینل 12” نے رپورٹ کیا کہ صیہونی فوج نے شمالی غزہ میں پمفلٹس پھینکے ہیں جن میں شہریوں کو جنوب کی طرف نقل مکانی کی ہدایت دی گئی ہے۔
دوسری جانب "گلوبس” کے چیف ایڈیٹر نعمہ سیکولر نے "چینل 12” سے گفتگو کرتے ہوئے سوال اٹھایا: "غزہ پر قبضے کا مطلب کیا ہوگا؟” — اور خود ہی جواب دیا: "اس کا مطلب ہے ایک مکمل جنگ میں داخل ہونا، ہزاروں ریزرو فوجیوں کی زندگی معطل کرنا، روزانہ درجنوں خبریں جاری ہونا، اور یرغمالیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا۔ ہمیں معلوم نہیں اس کے نتائج کیا ہوں گے۔”