فلسطین کےمقبوضہ مغربی کنارے میں غیرقانونی طورپر یہودی آباد کاری کا عمل جنگی بنیادوں پر جاری ہے۔ پچھلے چند برسوں میں لاکھوں یہودیوں کو فلسطینی زمینوں پر بسایا گیا۔ تازہ اعدادو شمار کےمطابق غرب اردن میں یہودیوں کی تعداد 6 لاکھ 55 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
رپورٹ کےمطابق غرب اردن میں یہودی توسیع پسندی پر نظر رکھنے والی کمیٹی کے سربراہ غسان دغلس نے رام اللہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ کل بدھ کے روز اسرائیلی فوجیوں نے غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں جالود کے مقام پر 10 فلسطینی خاندانوں کو مکانات خالی کرنے کے نوٹس جاری کیے گئے۔ ان مکانوں میں کم سے کم 70 فلسطینی شہری آباد ہیں جن کے بے گھر ہونےکا اندیشہ ہے۔دغلس نے بتایا کہ صہیونی حکام کی جانب سے جالود کےمقام پر فلسطینیوں کے مکانات خالی کرانے کا مقصد وہاں پر یہودی انتہا پسندوں کو آباد کار کرنا ہے۔ جالود قصبہ ایک عرصے سے صہیونی شدت پسندوں کے نرغے میں ہے۔ قصبے میں کل 550 فلسطینی آباد ہیں مگر صہیونی حکام فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری کردہ نوٹسز میں ایک من گھڑت دعویٰ کیاگیا ہے کہ فلسطینیوں نے یہ مکانات حکومت کی اجازت کے بغیر تعمیر کیے ہیں۔ اس لیے ان کی مسماری ضروی ہے۔
جالود قصبے کے ایک مقامی شہری اور میونسپل کمیٹی کے چیئرمین عبداللہ الحاج محمد نے بتایا کہ صہیونی حکام قصبے کی 85 فی صد اراضی پہلے ہی ہتھیا چکے ہیں یا فلسطینیوں کو اراضی تک پہنچنے سے روک دیا گیا ہے۔