(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ نے اپنے ایک سخت ردعمل میں لبنانی حکومت کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کے تحت مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ حزب اللہ کے مطابق یہ فیصلہ درحقیقت قابض اسرائیل کے اس خواب کو پورا کر رہا ہے جسے وہ اپنی عسکری جارحیت کے باوجود حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنانی حکومت نے ایک سنگین غلطی کی ہے کیونکہ یہ اقدام لبنان کی مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کر کے اسے صہیونی اور امریکی جارحیت کے سامنے کمزور اور بے بس بنا دے گا۔
حزب اللہ کے مطابق یہ فیصلہ ایک صریح آئینی خلاف ورزی ہے جو نہ صرف لبنانی حکومت کے وزارتی بیان کے خلاف ہے بلکہ اس سے طائف معاہدے کے تحت قومی اتحاد اور آزادی کی جدوجہد کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
حزب اللہ نے وضاحت کی کہ وزارتی بیان کی شق نمبر پانچ میں واضح طور پر حکومت کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ قابض اسرائیلی فوج کے قبضے سے تمام لبنانی علاقوں کی آزادی کے لیے ضروری اقدامات کرے اور یہ کام صرف ریاستی اداروں، خاص طور پر لبنانی فوج کے ذریعے انجام دیا جائے۔
بیان میں کہا گیا کہ لبنان کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت کا وجود ناگزیر ہے۔ مزاحمتی قوتیں لبنان کی طاقت کا حصہ ہیں اور انہیں مضبوط بنانا، لبنانی فوج کو اسلحے سے لیس کرنا اور دشمن قابض اسرائیل سے سرزمین کا دفاع کرنا ایک لازمی قومی ضرورت ہے۔
حزب اللہ نے اس فیصلے کے پس پردہ امریکی ایلچی بَراک کے دباؤ کو براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا، جس کا ذکر وزراء کے اجلاس میں بھی ہوا۔ صدر سلام نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی دستاویز پر بحث اگلے جمعرات کو مکمل کی جائے گی اور لبنانی فوج کو سال کے اختتام تک ایک عملی منصوبہ تیار کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے جس کے تحت تمام اسلحہ محدود کر دیا جائے گا۔
حزب اللہ کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ قابض اسرائیل کے مفاد میں ہے اور اس سے لبنان کو دشمن کے سامنے مکمل طور پر غیر مسلح کر کے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جو کسی بھی خطرے کو روکنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے لبنانی صدر جنرل جوزف عون کی طرف سے دی گئی قومی سکیورٹی حکمت عملی کی تجاویز کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ حزب اللہ اور تحریک امل کے وزراء کا اجلاس سے واک آؤٹ کرنا نہ صرف اس فیصلے کو مسترد کرنے کا اظہار ہے بلکہ یہ لبنانی عوام، مختلف طبقات، مسالک، علاقوں اور جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے کو ناقابلِ قبول قرار دینے کا نمائندہ عمل بھی ہے۔
حزب اللہ نے واضح کیا کہ امریکہ کی تابعداری اور قابض اسرائیل کی مرضی کے مطابق لبنان کو زیر کرنے کی کوئی بھی کوشش لبنانی خودمختاری کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اس فیصلے کے بعد قابض اسرائیل کو لبنان کے جغرافیہ، سکیورٹی، سیاست اور قومی وجود کے ساتھ کھیلنے کا کھلا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ حزب اللہ اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا اور اسے کالعدم سمجھتا ہے۔
بیان کے اختتام پر حزب اللہ نے کہا کہ ہم مکالمے، اسرائیلی جارحیت کے خاتمے، سرزمین کی آزادی، قیدیوں کی رہائی، ریاست کی تعمیر اور حملے سے تباہ شدہ علاقوں کی بحالی کے لیے تیار ہیں، مگر یہ سب اس وقت ممکن ہو گا جب صہیونی سفاک حکومت بھی معاہدے کی شرائط کو پوری کرے۔
آخر میں حزب اللہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی اولین ترجیح کے طور پر قابض اسرائیل کے تسلط سے تمام لبنانی سرزمین کی آزادی کے لیے وہ تمام ضروری اقدامات کرے جیسا کہ اس نے اپنے وزارتی بیان میں وعدہ کیا تھا۔