(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) برازیل کے سب سے بڑے شہر، ساو پاؤلو میں، اتوار کے روز سینکڑوں سیاسی کارکنوں، مزدور تنظیموں کے نمائندوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ایک پرجوش اور پردرد احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس کا مقصد نہتے فلسطینی عوام خصوصاً غزہ کے باشندوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا اور ان پر مسلط کردہ اجتماعی نسل کشی اور قحط جیسے انسانیت سوز مظالم کی شدید مذمت کرنا تھا۔
یہ مظاہرہ شہر کے مرکزی علاقے آوینیڈا پاؤلیستا پر منعقد ہوا جہاں مظاہرین نے سافرا بینک کے سامنے جمع ہو کر احتجاج کیا جو قابض سفاک حکومت کو مالی معاونت فراہم کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ مظاہرے کا مرکزی نعرہ تھا: "غزہ میں قحط ختم کرو” اور "لولا، اب اسرائیل سے تعلقات ختم کرو”۔
اس احتجاج کی کال بائیں بازو کی جماعتوں، لیبر یونینز، عوامی یونینز کے مرکز، انقلابی کمیونسٹ پارٹی (پی سی او، اور فلسطینی آزادی کی حامی تنظیموں جیسے بی ڈی ایس تحریک نے دی تھی۔ مظاہرے میں فلسطینی کمیونٹی کے کارکنوں کے علاوہ صہیونیت کے مخالف یہودی افراد نے بھی شرکت کی۔
مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر غزہ میں مسلط کردہ قحط کی مذمت اور برازیل و قابض اسرائیل کے درمیان معاشی و سفارتی تعلقات فوری طور پر منقطع کرنے کے مطالبات درج تھے۔ انہوں نے زوردار نعرے بلند کیے جن میں ” دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہے” اور "بچوں کے قاتلوں کو ایندھن نہیں” جیسے نعرے شامل تھے۔
عوامی یونینز مرکز کے رہنما، فابیو بوسکو، نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "غزہ میں اسرائیل کی بربریت دراصل عالمی ملی بھگت سے کی جانے والی نسل کشی ہے۔ ہم یہاں یہ پیغام دینے آئے ہیں کہ برازیل کو مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے نہ کہ ایک صہیونی قتل گاہ کو تیل فراہم کرنا چاہیے۔
مظاہرہ منعقد کرنے والی تنظیموں نے اپنی اپیل میں اقوام متحدہ کی "انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن” (آئی پی سی) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ غزہ کی پوری آبادی یعنی بائیس لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے جن میں سے نو لاکھ سے زائد افراد مرحلہ پانچ یعنی مکمل قحط کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں جو موجودہ صدی میں کسی بھی خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
ساو پاؤلو کے بینک ملازمین کی یونین کے رہنما، ویلیم مینڈیس، نے اپنے بیان میں کہاکہ آج دنیا ایک شرمناک خاموشی کی گواہ ہے، جبکہ غزہ میں انسانیت کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔ ہم جمہوریت اور سماجی انصاف کی بات کیسے کر سکتے ہیں جب معصوم بچوں کو بھوک کا ہتھیار بنا کر مارا جا رہا ہو؟
ایک اور مظاہرہ کنندہ کامیلا مالاغینی، نے کہاکہ غزہ کو آہستہ آہستہ ذبح کیا جا رہا ہے ،بھوک، پیاس اور بمباری نے اہل غزہ کی زندگی کو اذیت ناک بنا دیا ہے۔ یہ کوئی تنازعہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند نسل کشی ہے اور ہماری حکومت کو اس پر واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔
احتجاج کے دوران، مظاہرین نے برتن بجانے کی ایک علامتی سرگرمی بھی کی جو برازیل میں احتجاج کا ایک روایتی طریقہ ہے۔ اس کے ذریعے انہوں نے یہ واضح پیغام دیا کہ ملک کی قدرتی دولت، خاص طور پر تیل کو قابض فوج کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنوری سے مئی 2024 کے دوران برازیل نے قابض اسرائیل کو ساتھ لاکھ بیرل تیل برآمد کیا تھا۔
سرکاری اسکول کی استاد اور انسانی حقوق کی کارکن لورینا فرنانڈیز نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے دور کا حقیقی ہولوکاسٹ ہے۔ صدر لولا کو صرف الفاظ پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ،اگر وہ واقعی اسے نسل کشی سمجھتے ہیں تو انہیں قابض اسرائیل سے مکمل تعلقات منقطع کرنے چاہئیں۔
کئی مظاہرین نے اس بات کی بھی مذمت کی کہ قابض اسرائیلی فوج نے "حنظلہ کشتی” کو روکا جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کی ایک علامتی کوشش تھی اور اس پر سوار رضاکاروں کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک محاصرہ ختم نہیں ہوتا اور راستے نہیں کھلتے، کشتیوں کی روانگی اور احتجاجی مارچ جاری رہیں گے۔
مظاہرے میں شریک تنظیموں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ سیاسی اور عوامی سطح پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گی تاکہ قابض اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑے اور فلسطینی قوم کی آزادی، عزت اور اپنی مکمل سرزمین پر خودمختار ریاست کے قیام کی جدوجہد کو عملی حمایت ملے۔
یہ مظاہرہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب برازیل کے عوام میں قابض اسرائیل کے وحشیانہ حملوں پر شدید غصہ پایا جاتا ہے اور صدر لولا دا سلوا کی حکومت کی جانب سے قابض ریاست سے تعلقات برقرار رکھنے پر عوامی حلقوں میں شدید مایوسی اور ناراضی پائی جاتی ہے باوجود اس کے کہ صدر لولا نے حالیہ بیانات میں غزہ میں جاری کارروائی کو خواتین اور بچوں کے خلاف ایک جابر و ظالم سفاک مسلح ریاست کی طرف سے انجام دی جانے والی نسل کشی قرار دیا تھا۔
صدر لولا دا سلوا نے اکیس جولائی کو برازیلیا میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں بلکہ ایک منظم نسل کشی ہے جسے ایک غاصب درندہ صفت ریاست نہتے عورتوں اور بچوں کے خلاف انجام دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ بچوں کو خوراک سے محروم رکھ کر اور معصوموں کو شہید کر کے کوئی بھی مقصد جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے قابض اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینیوں شہریوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کر رہی ہے۔
صدر لولا نے زور دے کر کہا کہ جب تک فلسطینی عوام کو 1967 کی سرحدوں پر اپنی خودمختار ریاست کے قیام کا مکمل حق تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے قابض اسرائیل کی طرف سے مسلسل خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی روش کو ترک کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
یاد رہے کہ ساتھ اکتوبر 2023 سے اب تک امریکہ کی پشت پناہی سے قابض اسرائیل نے غزہ میں جو انسانیت سوز نسل کشی شروع کی ہے، اس میں ہزاروں فلسطینی بچوں اور عورتوں سمیت دو لاکھ چار ہزار سے زائد افراد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ گیارہ ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں بچے بھوک اور بیماریوں کی نذر ہو چکے ہیں اور پورا غزہ ایک ویران خطے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔