(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کے جذبے سے سرشار "قافلۂ صمود” نامی کارواں، جو غزہ کے محصور عوام کے لیے امید کی کرن اور اسرائیلی درندگی کے خلاف ایک پرامن احتجاج ہے، منگل کے روز تیونس اور لیبیا کی سرحد عبور کر کے لیبیا پہنچ گیا۔ یہ قافلہ قابض صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ بدترین محاصرے کو توڑنے کی ایک بھرپور اور باوقار کوشش ہے۔
قافلے کے منتظمین کے مطابق اس کارواں میں سینکڑوں رضاکار شامل ہیں جو غزہ پہنچنے کے لیے پرعزم ہیں۔ تیونس کے دارالحکومت سے روانہ ہونے والا یہ قافلہ راستے بھر عوامی محبت، استقبال اور حمایت کا مرکز بنا رہا۔ "قافلۂ صمود” کے ترجمان نبیل الشنوفی نے بتایا کہ قابس، مدنین، بن قردان سمیت کئی شہروں میں عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور صفاقس میں ان کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔
قافلے کے میڈیا کوآرڈینیٹر یاسین القایدی کے مطابق یہ قافلہ شمالی افریقہ کی پانچ ریاستوں تیونس، الجزائر، مراکش، موریتانیہ اور لیبیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ قافلہ آئندہ جمعرات کو قاہرہ پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ پیر کے روز وہ مصر کے رفح بارڈر پر غزہ کے دروازے پر موجود ہو گا۔
قافلے میں چودہ بسیں اور سو کے قریب گاڑیاں شامل ہیں، جن میں اندازاً پندرہ سوافراد سوار ہیں۔ قافلے کے ترجمان غسان الہنشیری نے ریڈیو موزائیک ایف ایم کو بتایا کہ شرکاء لیبیا میں زیادہ سے زیادہ تین یا چار دن قیام کریں گے اور اس کے بعد مصر روانہ ہوں گے۔ البتہ مصر کی جانب سے تاحال زمینی راستہ عبور کرنے کی باقاعدہ اجازت موصول نہیں ہوئی ہے۔ تاہم، بعض حوصلہ افزااشارے ضرور ملے ہیں۔
منتظمین نے واضح کیا ہے کہ اس قافلے کا بنیادی مقصد غزہ میں امداد لے کر جانا نہیں، بلکہ یہ ایک علامتی اقدام ہے، جو دنیا کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ غزہ اس وقت بھوک، پیاس، بمباری اور محاصرے کی چکی میں پسنے والا سب سے زیادہ مظلوم خطہ ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ بھی اسے دنیا کا بدترین فاقہ زدہ علاقہ قرار دے چکی ہے۔
"قافلۂ صمود” نے پیر کی صبح تیونس سے اپنی عظیم الشان پیش قدمی کا آغاز کیا۔ اس قافلے میں شامل سینکڑوں کارکنوں کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ غزہ کے عوام تنہا نہیں اور قابض صہیونی ریاست کے مسلط کردہ انسانیت سوز محاصرے کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کارواں ایک ایسے عالمی تحریک کا حصہ ہے، جس میں دنیا بھر کے بتیس ممالک سے ہزاروں افراد شریک ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ غزہ پر جاری وحشیانہ جنگ فوری روکی جائے۔ محاصرہ ختم کیا جائے اور بھوک سے بلکتے دو ملین سے زائد فلسطینیوں تک فوری امداد پہنچائی جائے۔
اس دوران ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ پیر کی صبح قابض اسرائیلی افواج نے بین الاقوامی رضاکاروں کی کشتی میڈلین پر پانیوں میں قزاقی کرتے ہوئے حملہ کیا، جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے روانہ تھی۔ اس کشتی پر سوار بارہ بین الاقوامی کارکنوں کو اغوا کر کے زبردستی اسدود بندرگاہ پر لے جایا گیا، جہاں انہیں قید میں رکھ کر ملک بدر کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ یہ واقعہ اس امر کی ایک اور سنگین دلیل ہے کہ قابض اسرائیل انسانی حقوق، عالمی قوانین اور بین الاقوامی یکجہتی کی ہر آواز کو طاقت اور درندگی سے دبانا چاہتا ہے