رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس اسرائیلی حکومت کی منظوری کے بعد فوری طورپر 1800 مکانات کی مختلف اوقات میں تعمیر شروع کی گئی جب کہ 734 مکانات کی تعمیر کے لیے تیاریاں مکمل کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہودیوں کو غیرقانونی طورپر فلسطین میں بسانے کے لیے گذشتہ برس جو مکانات تعمیر کیے گئے ان میں سے 40 فی صد مکانات دیوار فاصل کی مشرقی جانب واقع ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چالیس فی صد مکانات غرب اردن میں پہلے سے موجود یہودی کالونیوں سے الگ فلسطینی آبادیوں کے آس پاس بنائے گئے ہیں یا زیرتعمیر ہیں ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 265 مکانات جنگی بنیادوں ر تعمیر کیے گئے جب کہ 32 گھر فلسطینیوں کی ذاتی ملکیتی زمینیں سلب کرنے کے بعد ان میں تعمیر کیے گئے اور وہاں یہودیوں کو بسایا گیا۔
صہیونی حکومت کی جانب سے منظور کردہ 1800 رہائشی فلیٹس میں سے 1547 مکانات مستقل بنیادوں پر بنائے گئے جب کہ 253 مکانات کی جگہ تبدیل بھی کی جاسکے گی۔ مکانا کے علاوہ 63 دیگر پبلک عمارتیں بھی بنائی گئیں جن میں معبد، بچوں کے پارک شامل ہیں جب کہ 42 عمارتیں صنعت اور زراعت کے مقاصد کے لیے تعمیر کی گئیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے صہیونی حکومت کے اس دعوے کا بھانڈہ بھی پھوڑ دیا کہ تل ابیب نے فلسطینی علاقوں میں یہودی تعمیرات روک دی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہ ظاہراسرائیلی حکومت نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے علاقوں میں تعمیرات نہیں کررہی ہے مگر تل ابیب نے خفیہ طورپر غرب اردن اور بیت المقدس میں 1143 مکانات کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کیے ہیں۔ ان میں سے 560 مکانات غرب اردن میں جب کہ 583 بیت المقدس میں تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی کی پلاننگ وکنسٹرکشن کمیٹی نے 348 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے سنہ 2009 ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اب تک فلسطینی علاقوں میں 7 ہزار 683 مکانات تعمیر کیے گئے جن میں 35 ہزار یہودیوں کو بسایا گیا۔ سنہ 2014 ء میں 3100 مکانات تعمیرکرکے ان میں یہودی آباد کیے گئے۔
