مقبوضہ بیت المقدس مرکزاطلاعات فلسطین
منگل کے روز اسرائیل میں یہودیوں کے "عید الغفران” نامی مذہبی تہوار کے موقع پر پونے دو سو کے قریب یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات
ادا کیں اور قبلہ اول کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق منگل کو مجموعی طورپر 173 یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ میں گھس کروہاں پر تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات ادا کیں۔ یہودیوں کی آمد سے قبل ہی اسرائیلی پولیس اور فوج نے مسجد اقصیٰ کے اطراف کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ یہودیوں کی عید الغفران کے موقع پر فلسطینی شہریوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے اور نمازوں کی ادائی سے روک دیا گیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ قابض فورسز کی فول پروف سیکیورٹی میں درجنوں یہودی آباد کاروں نے قبلہ اول میں گھس کرمذہبی رسومات ادا کیں۔ اس موقع پر مسجد اقصیٰ میں موجود فلسطینی شہریوں نے یہودیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مسجد اقصیٰ کی فضاء نعرہ تکبیر سے گونجتی رہی۔ یہودی آباد کاروں نے فلسطینی نمازیوں پر حملے کی بھی کوشش کی تاہم صہیونی پولیس نے فلسطینی شہریوں کو لاٹھی چارج کرکے پیچھے دھکیل دیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ یہودی آباد کاروں کی آمد کے بعد مسجد اقصیٰ کے باب السلسلہ کے باہر کئی گھنٹے ماحول سخت کشیدہ رہا۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیردفاع نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ غزہ کی پٹی، بیت المقدس اور غرب اردن کے کسی بھی فلسطینی کو "عیدالغفران” کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ قابض فوجیوں نے بیت المقدس میں یہودیوں کی "عید غفران” کے موقع پر فلسطینی محکمہ اوقاف کے ایک عہدیدار فراس الدبس کو حراست میں لے لیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب فلسطینی شہری نماز ظہر کے لیے قبلہ اول میں آنا شروع ہوئے تو اسرائیلی فوجیوں نے انہیں روک دیا۔ بعد ازاں چالیس سال سے زائد عمر کے افراد کو اندر جانے کی اجازت دی گئی اور اس سے کم عمر افراد کو واپس کردیا گیا۔ قبل ازیں نماز فجر کے وقت بھی قابض فوجیوں نے صرف 40 سال سے زائد عمر کے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے آنے کی اجازت دی تھی۔
خیال رہے کہ اسرائیل میں عبرانی سال کے آغاز کے 10 دن کے بعد "یوم الغفران” کے نام سے ایک تہوار منایا جاتا ہے۔ اس روز یہودی دن کو روزہ رکھتے ہیں اور معابد میں جا کر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔