رپورٹ کے مطابق قاہرہ میں آرتھوڈوکس چرچ کے ترجمان بولس حلیم نے ایک بیان میں صدر محمود عباس کے اس مطالبے کو مسترد کردیا جس میں مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ بیت المقدس میں آمدو رفت جاری رکھیں۔ بولس حلیم کا کہنا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے قبضے کے ہوتے ہوئے بیت المقدس کے دورے کی حمایت ہرگز نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی زیارت کے حوالے سے دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ زیادہ مستند رائے یہ ہے کہ جب تک اسرائیل کا بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے قبضہ ختم نہیں ہوجاتا اس وقت تک بیرون ملک سے اسرائیل کے ویزے پر بیت المقدس کا دورہ کرنا یا مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے آنا صہیونی ریاست کا قبضہ تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری رائے کے پرچارک فلسطینی اتھارٹی کےسربراہ محمود عباس ہیں جن کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے بیت المقدس کا رخ کرنے یا دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی آمد سے اسرائیل کا غیرقانونی قبضہ ختم کرنے میں مدد ملے گی چاہے بیرون ملک سے لوگ اسرائیلی ویزے پرہی بیت المقدس کیوں نہ آئیں۔
مصر کی عیسائی برادری کاموقف بھی پہلی رائے سے ہم آہنگ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے قبضے کے ہوتے ہوئے بیت المقدس کی زیارت کی حمایت نہیں کریں گے۔ کیوں کہ ایسا کرنا صہیونی ریاست کو غیراعلانیہ طورپر تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔