رپورٹ کے مطابق اپنے ایک بیان میں مسجد اقصیٰ کے امام و خطیب ڈاکٹر عکرمہ صبری نے کہا کہ اردن میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی موجودگی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے قبلہ اول اور حرم قدسی میں جگہ جگہ خفیہ کیمرے لگا کر مانیٹرنگ کی تجویز دی۔ امریکا کی جانب سے اس تجویز کوقبول کرلیا گیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کی جانب سے اس متنازع تجویز پر خاموشی معنی خیز ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل مل کر قبلہ اول کی تقسیم کی سازشیں کررہے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں کیمرے نصب کرنے اور حرم قدسی میں اسرائیل کو انتظامی معاملات میں مداخلت کا حق دے کر عملا قبلہ اول کی تقسیم کی سازش تیار کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم صہیونیوں کو اپنے مقدس مقام میں کیمرے نصب کرکے اس کی بے حرمتی کی قطعا اجازت نہیں دیں گے۔ مسجد اقصیٰ کے اندر کیمرے نصب کرنا قبلہ اول کی سرعام بے حرمتی کے مترادف ہے۔ خفیہ کیمروں کی تنصیب اور بعد ازاں ان کی دیکھ بحال کی آڑ میں صہیونی فوجیوں کو قبلہ اول میں داخل ہونے اور مسجد کی بے حرمتی کا حق دیا گیا ہے۔
الشیخ صبری کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں کیمرے لگانے سے کشیدگی ختم نہیں ہوگی۔ جب اسرائیلی فوج اور انتہا پسند یہودی دن رات قبلہ اول پر دھاوے جاری رکھیں گے۔ فلسطینی مردو خواتین نمازیوں کے قبلہ اول میں داخلے پر پابندی ہوگی تو حالات خراب ہوں گے۔ ہمیں نہ تو قبلہ اول میں اسرائیل کی خفیہ کیمروں کی تنصیب کی تجویز قبول ہے اورنہ ہی قبلہ اول کے آس پاس اسرائیلی فوج اور پولیس کی تعیناتی برداشت کی جائے گی۔
الشیخ عکرمہ صبری کا کہنا تھا کہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا مشرق وسطیٰ کا دورہ صرف اسرائیل کو بچانے کی خاطر تھا۔ امریکا کو بیت المقدس میں امن وامان کے قیام سے کوئی غرض نہیں ہے البتہ امریکی صہیونی ریاست کے ساتھ مل کر قبلہ اول پر یہودیوں کی اجارہ داری قائم کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ اسرائیل کو مسجد اقصیٰ میں کیمرے لگانے اور اس کے داخلی راستوں پر پولیس کھڑی کرنے کا حق دے کر عملا قبلہ اول کے خلاف ایک خطرناک سازش کی گئی ہے جسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔