(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)قابض اسرائیل کے محققین اور تعلیمی اداروں کے خلاف عالمی علمی بائیکاٹ نے گذشتہ دو برسوں میں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو لیا ہے۔ قابض فوج کی طرف سے غزہ میں جاری قتل عام، تباہی اور اجتماعی سزا کے نتیجے میں دنیا بھر میں جامعات، تحقیقی ادارے اور علمی انجمنیں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر رہی ہیں۔
عبرانی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کے مطابق سنہ2023ء کے اکتوبر میں غزہ پر جارحیت کے آغاز سے اب تک تقریباً ایک ہزار علمی بائیکاٹ کے واقعات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جن میں تحقیقی ادارے، پیشہ ورانہ انجمنیں اور عالمی علمی برادری کے افراد شامل ہیں۔
اخبار کے مطابق بائیکاٹ کے یہ واقعات گذشتہ سال کے مقابلے میں تین گنا بڑھ گئے ہیں۔ اسرائیلی ماہرینِ تعلیم اس بڑھتی ہوئی تعلیمی تنہائی سے شدید تشویش میں مبتلا ہیں، خاص طور پر جب قابض حکومت اس بحران سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔
ایک اسرائیلی محقق نے ’’ہارٹز‘‘ سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ اسرائیل میں تعلیمی تحقیق ’’انحطاط کے دہانے پر ہے‘‘ کیونکہ دنیا بھر میں اسے ایک درندہ ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے سربراہ اریئل بورات نے کہا کہ اسرائیلی جامعات اپنی تاریخ کے ’’بدترین مرحلے‘‘ سے گزر رہی ہیں۔ ان کے مطابق جنگ کے خاتمے کے بعد حالات بہتر ہونے کی توقعات ’’محض فریب‘‘ ہیں کیونکہ اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر نفرت اور بائیکاٹ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
’’ہارٹز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ گذشتہ دو برسوں میں تقریباً 40 غیر ملکی جامعات نے اسرائیلی تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون مکمل یا جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہ عمل قابض اسرائیل کی علمی و تحقیقی ساکھ کے عالمی زوال کی واضح علامت ہے۔
اس بائیکاٹ کے بڑھتے رجحان کے باعث اسرائیلی جامعات کے سربراہوں کی تنظیم نے ڈیڑھ برس قبل ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جس کا مقصد عالمی سطح پر بائیکاٹ کے واقعات کا ریکارڈ جمع کرنا اور غیر ملکی جامعات سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس کمیٹی نے بین الاقوامی وکلاء کی خدمات حاصل کیں اور مغربی جامعات کو خطوط لکھے، لیکن یہ کوششیں اسرائیل کی داغ دار علمی شبیہ کو بچانے میں ناکام رہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کی یہ تنہائی صرف علمی میدان تک محدود نہیں رہی بلکہ سیاست، ثقافت اور کھیلوں کے میدانوں میں بھی پھیل گئی ہے۔ گذشتہ سال کے دوران کئی بین الاقوامی کھیلوں اور ثقافتی تقریبات میں اسرائیلی ٹیموں اور وفود کا بائیکاٹ کیا گیا۔
قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے خود ستمبر میں اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی سے دوچار ہے۔ اس نے اپنی کابینہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ ’’ہمیں خودکفیل معیشت‘‘ کی طرف بڑھنا ہوگا کیونکہ دنیا اب اسرائیل کے ساتھ کھڑی نہیں رہی۔
یہ عالمی بائیکاٹ دراصل قابض اسرائیل کی اُس وحشیانہ نسل کشی کا ردعمل ہے جو اس نے سنہ2023ء کے 8 اکتوبر سے غزہ میں جاری رکھی۔ دو برسوں پر محیط اس جارحیت میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی 90 فیصد شہری تنصیبات ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور ابتدائی مالی نقصانات 70 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔
دنیا کے علمی ادارے، تحقیقی انجمنیں اور دانشور اب قابض اسرائیل کے خلاف بیدار ضمیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ اس پیغام کو واضح کر رہے ہیں کہ غزہ میں معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون پر تحقیق، علم اور تہذیب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔