رپورٹ کے مطابق فلسطینی حکام نے مسجد الاقصی اور اس کے گرد و پیش میں کیمروں کی تنصیب کی اسرائیلی تجویز کو ڈرامہ قراردے کر مسترد کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مسجد اقصی کے اطراف بڑھتی کشیدگی کے بعد اسرائیل کی جانب سے مقدس مقام کے اطراف مزید کیمرے نصب کرنے کی
تجویز دی گئی تھی تاہم اسرائیل نے اس کی عالمی سطح پر مانیٹرنگ سے صاف انکار کیا تھا جب کہ فلسطینی حکام نے کیمرے نصب کرکے اسرائیلی حکام کی جانب سے مانیٹرنگ کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگراسرائیل مسجد الاقصی میں تبدیلی نہیں کررہا ہے تو مسجد اقصی کے اندراورباہر چپے چپے پر کیمروں کی تنصیب، سمنٹ کے بلاک کھڑے کرنے، جگہ جگہ فوجی چوکیاں اور ناکے لگا کر شہریوں کی آمد ورفت روکنے کا کیا مقاصد ہے اور یہ عمل قبلہ اول کے اسلامی اسٹیٹیس کو تبدیل کرنے کا واضح ثبوت ہے۔
فلسطینی ایوان صدر کے مشیر احمد الرویضی کے مطابق اسرائیل نے فوجی چوکیوں، فضائی نگرانی، سیمنٹ کے بلاک کھڑے کرنے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے پورے بیت المقدس کا محاصرہ کررکھا ہے اس کے باوجود اسرائیل یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ مسجد الاقصی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کررہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ میں کیمرے لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مسئلہ اسرائیل کا القدس پر ناجائز تسلط ہے۔ جب تک اسرائیلی تسلط ختم نہیں ہوگا اس وقت تک فلسطینیوں کو آزادانہ طور پر قبلہ اول تک رسائی کا حق نہیں مل سکتا ہے اور خفیہ کیمرے لگانے کا مقصد فلسطینیوں کی مذہبی آزادی میں خلل ڈالنا ہے۔
واضح رہے کہ سال 2000 کے بعد اسرائیلی فوج نے قبلہ اول میں اس وقت مداخلت کرنا شروع کر دی تھی جب یہودی آبادکاروں نے بھی مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر مذہبی رسومات کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے قبلہ اول کی یہودیوں اور مسلمانوں میں زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کی سازشیں بھی زور پکڑ گئی تھیں۔