’’اسرائیل بیتنا‘‘ کے سربراہ اور سابق وزیرخارجہ نے وزیراعظم نیتن یاھو کی موجودہ پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن انتہا پسندانہ اسلامی نظریات کے ترجمان پرچارک ہیں۔ ان کے ساتھ تعلقات کے قیام کی کوششیں خوش آئند نہیں ہیں۔
لائبرمین کا کہنا تھا کہ ترکی کے ساتھ دوستی مصر، یونان اور قبرص کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی قیمت پر نہیں کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ ترک صدر مصرکے بارے میں یا غزہ کی پٹی کی حمایت پر مبنی اپنی پالیسی میں کسی قسم کی نظر ثانی کریں گے۔ ترکی کے ساتھ مفاہمت سیاسی خسارے کا سودا ہوگا۔
درایں اثناء اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر اور ’’صہیونیت الائنس‘‘ کے سربراہ یتزحاق ہرٹزوگ نے ترکی کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی حمایت کی اور کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب ہو کر دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے کے مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ نیز ماضی کی نسبت لمحہ موجود میں انقرہ کے ساتھ بہتر سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم دو یا تین سال پیشتر ترکی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرلیتے تو آج زیادہ پرسکون ہوتے،مگر نیتن یاھو لائبرمین جیسے شدت لیڈروں کےہاتھوں یرغمال رہے جس کے ہمیں بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں ترک اور اسرائیلی اخبارات نے انکشاف کیا ہے کہ تل ابیب اورانقرہ پانچ سال سے تعطل کا شکار تعلقات بحال کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اسرائیلی اور ترک حکومت کے عہدیداروں نے بھی دو طرفہ بات چیت کی تصدیق کی ہے تاہم فریقین کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی حتمی سمجھوتہ طے نہیں پاسکا ہے۔