اسرائیلی اخبارات نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی علاقوں میں چھ مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی یہودی کالونی”شیلو” کو آئینی تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ نیز اس کالونی میں مزید تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار”ہارٹز” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ حال ہی میں "یش دین” نامی ایک نیم سرکاری تنظیم نے اسرائیلی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت "شیلو” کالونی کو آئینی تحفظ فراہم کرے تاکہ وہاں پر آزادانہ یہودی توسیع پسندانہ سرگرمیاں شروع کی جاسکیں۔گذشتہ برس مقامی فلسطینی شہریوں کی جانب سے اسرائیلی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں یہودی کالونی”شیلو” کے ایک حصے پر اسرائیلی قبضے کو غیرقانونی اور غاصبانہ قرار دے کر اسے چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی شہریوں کی ذاتی زمینوں کو یہودی کالونی کے لیے غصب کررکھاہے۔ صہیونی حکام کی جانب سے مقامی فلسطینیوں کی اراضی پرغاصبانہ قبضے کے لیے یہ جواز تراشا گیا ہے کہ چونکہ اس علاقے کے فلسطینی پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس لیے ان کی اراضی کو یہودی توسیع پسندی کے لیے استعمال میں لانا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ شمالی مغربی کنارے کے 6103 دونم رقبے پر پھیلی یہ یہودی کالونی سنہ 1990 ء کے اوائل میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کالونی میں بیشتر رقبہ فلسطینی شہریوں کی ذاتی املاک سے غصب کرکے شامل کیاگیا تھا۔ اس کالونی میں چار اہم یہودی آبادیاں بنائی گئی ہیں۔ انہیں عدی عادی، کودیش، احیا اور کیداہ کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ فلسطینی شہریوں کی جانب سے عدی عادی نامی آبادی کو ختم کرانے کی درخواست دی گئی تھی۔ فلسطینیوں کی جانب سے دی گئی درخواست پر اسرائیلی سپریم کورٹ نے 16 رہائشی پلازوں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا مگر حکومت انہیں مسمار کرنے سے بچانے کے لیے آئینی تحفظ کےحصول کے لیے کوشاں ہے۔