دمشق(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) شام نے مقبوضہ گولان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس تشکیل دیئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شامی عوام نے بھی منگل کے روز اپنے ملک کے مختلف علاقوں میں اجتماع کر کے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حکمرانی باضابطہ طور پر تسلیم کرنے پر مبنی امریکی صدر ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کی اور تاکید کے ساتھ اعلان کیا کہ گولان کا علاقہ شام کا اٹوٹ حصہ ہے اور دنیا کی کوئی بھی طاقت اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
شام کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں امریکی صدر ٹرمپ کے غیر قانونی اقدام پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں شام کا اٹوٹ حصہ ہیں اور شام سے متعلق اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
مقبوضہ گولان کی پہاڑیاں شام کے صوبے قنیطرہ کا حصہ ہیں جن پر غاصب اسرائیلی حکومت نے سن سڑسٹھ کی چھے روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا اور سن انیس سو بیاسی میں شام کے اس مقبوضہ علاقے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔سن انیس سو اکیاسی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیشتر اراکین کی جانب سے منظور کی جانے والی قرارداد چار سو ستّانوے میں کہ جس کی امریکہ نے بھی حمایت کی، گولان کے سلسلے میں اسرائیلی حکومت کے فیصلے اور اس بارے میں اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں گولان کے علاقے کو شامل کیا جانا غلط اقدام ہے۔
مگر امریکہ میں جب سے خاص طور سے ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں وہ مسلسل ایسے فیصلے کر رہے ہیں کہ جن سے عالمی سطح پر بحران و بدامنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹرمپ کی ایک پالیسی اسرائیل کی ہر طرح کی بے چون و چرا اندھی حمایت اور ایسے اقدامات کو عمل میں لانا ہے کہ جن پر امریکہ کے اس سے قبل کے صدور بھی عمل کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ حکومت نے چودہ مئی دو ہزار اٹھارہ کو بھی ایک اشتعال انگیز قدم اٹھاتے ہوئے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم اور تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عالمی سطح پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور امریکہ کے اس اقدام کو اشتعال انگیز اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
امریکہ کے موجودہ صدر نے صیہونیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمام عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوانین کو بائی پاس کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت میں قدم اٹھائے ہیں۔
پچّیس مارچ کو بھی انھوں نے ایک آرڈینینس پر دستخط کر کے شام کے مقبوضہ علاقے گولان پر اسرائیل کی حکمرانی تسلیم کرنے کا اعلان کیا جبکہ ٹرمپ کے اس اقدام پر بھی عالمی سطح پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے یورپی مستقل رکن ممالک سمیت سلامتی کونسل کے دیگر یورپی رکن ممالک منجملہ بیلجیئم، جرمنی، اور پولینڈ نے بھی ایک مشترکہ بیان میں ٹرمپ کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کے قرارداد کے منافی قرار دیا۔
یورپی یونین نے بھی ایک بیان میں تاکید کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ وہ شام کے مقبوضہ علاقے گولان پر اسرائیل کی حکمرانی تسلیم نہیں کرے گی۔
ٹرمپ کے اس غیر قانونی اور فتنہ انگیز اقدام کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں منجملہ اسلامی جمہوریہ ایران، فلسطین، عراق، اردن، کویت، لبنان، روس، چین، جاپان، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین، عمان، قطر، پاکستان اور کینیڈا نیز دنیا کی اہم ترین شخصیات اور بین الاقوامی تنظیموں نیز اداروں نے ٹرمپ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور اسے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کے منافی قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حکمرانی باضابطہ طور پر تسلیم کرنے پر مبنی امریکی صدر ٹرمپ کے اقدام پر عالمی سطح پر ردعمل کا اظہار کئے جانے کے جواب میں کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے وہ غمگین ہیں مگر وہ اس مسئلے سے غافل بھی نہیں ہیں اور ان کو یاد ہے کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کئے جانے پر بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔